خوشامد

خوشامد

خوشامد
اپنی ذاتی مفاد کی غرض سے کسی کی جھوٹی اور سچی تعریف کرنا چاپلوسی سے کام لینا خوشامد کہلاتا ہے ۔ خوشامد کرنے والا اپنے مفاد کی خاطر کسی کی ایسی خصوصیات کو بیان کرتا ہے جو اس میں ہوتی ہی نہیں ہے ۔ خوشامد ایک بری عادت ہے اور مکر و فریب کی علامت ہے ۔ اسلام میں خوشامد کی مذمت کی گئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پر تعریف کرنے کو ناپسند فرمایا ہے  اور ایسے شخص کے منہ میں خاک ڈالنے کا ارشاد فرمایا ہے ۔ کیونکہ خوشامدی شخص خود غرض ہوتا ہے وہ اپنا مطلب نکالنے کے لئے ایسے ایسے اوصاف بیان کرتا ہے کہ سننے والا اپنے آپ کو ان خوبیوں کا مالک سمجھنا شروع کردیتا ہے جو اس میں سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے جبکہ خوشامدی شخص "بغل میں چھری منہ میں رام رام" کے تحت دوسروں میں خود نمائی کا  جذبہ پیدا کرکے اپنی کام نکلوا لیتے ہیں۔
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ
خوشامد کرنے والے مٹی کو سونا ، جھوٹے کو سچا اور کنجوس کو سخی کہنے سے باز نہیں آتے ۔ ہر بات میں اپنے مالک یا افسر کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں ۔ پہلے زمانے میں بادشاہوں کے دربار میں خوشامدیوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی تھی ، جو خوشامد سے بادشاہوں کی شان میں تعریفوں کے پل باندھتے اورقصیدے پڑھتے رہتے تھے ، جن کی وجہ سے یہ ہوا کہ ایسے بادشاہوں کے دربار میں بہادر اور جرات مند لوگوں کی کوئی عزت نہ ہوتی تھی ، جبکہ خوشامدی لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو جاتے ۔ ملکی صورت حال جو بھی ہو بادشاہ کو "سب ٹھیک ہے" کا اشارہ دیتے رہتے ۔ اس وجہ سے وہ بادشاہ اپنی عظیم سلطنت سے بھی محروم ہوجاتے ۔ تاریخ میں مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب خوشامدیوں کی کثرت بھی ہے ۔ جن حکمرانوں نے خوشامد کو پسند کیا اور اپنے شان میں جھوٹی شاعری ، فرضی افسانے اور فتوحات کے تذکرے سن کر خوش ہوتے رہے فل اسٹاپ غيروں نےان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور سلطنت پر قابض ہوگئے ۔
عموما" خوشامد اپنے سے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کی جاتی ہے ۔ ان کی ہر بات کو سراہنا، کھانے، پینے اور پہننے کی چیزوں پر اعلی ذوق ہونے کی تعریف کرنا اور ہر کام میں جی حضور کی رٹ لگائے رکھنا اکثر خوشامد کرنے والے حضرات کا شیوہ ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک خوشامد رہتا تھا جو بادشاہ کی خوشامد میں ہر وقت پیش پیش رہتا تھا ۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے کہا مجھے تو سبزیوں میں بینگن پسند ہے ۔ بادشاہ کے درباری نے فورا خوشامد والا انداز اپنایا اور کہنے لگا ۔ بالکل بجا فرمایا آپ نے بینگن تو سبزیوں کا بادشاہ ہے جسے بڑے بڑے نواب، امرا اور بادشاہ لوگ ہی کھاتے ہیں ۔ کیسی خوبصورت چمکدار شکل و صورت رکھتا ہے اور صحت کے لیے تو انتہائی مفید ہے ۔ چند دن گزرے تھے کہ ایک دن بادشاہ نے درباریوں کی محفل میں بینگن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بینگن کا سالن مجھے پسند نہیں ہے ۔ بادشاہ کے اس خوشامدی درباری نے یہ سنا تو کہنے لگا! اجی چھوڑئیے بادشاہ سلامت! بینگن بھی بھلا کوئی کھانے کی چیز ہے ۔ بھدی شکل ، کالا رنگ اور سنا  ہے کہ خون کو  بھی خراب کر دیتا ہے ۔ بد ذائقہ  ہوتا ہے جسے غریب لوگ ہی کھاتے ہیں ۔ خوشامدی انسان وقتی طور پر تو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے کام نکلوا لیتا ہے لیکن آہستہ آہستہ لوگ اس کی فطرت سے واقف ہوجاتے ہیں اور اس   کی باتوں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیتے ہیں،  یوں خوشامدی انسان معاشرے میں اپنا وقار کھو دیتا ہے۔
مشہور معقولہ ہے کہ" خوشامد بری بلا ہے" جو نہ صرف خوشامد کرنے والے کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ جو اپنی خوشامد کو پسند کرتا ہے اورخوش ہو کر سنتا ہے، تو وہ بھی نقصان اٹھاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے اگر ہم علامہ اقبال کی مشہور نظم جس میں مکڑا اور مکھی کو موضوع بنایا گیا ہے ، کو پڑھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ کس طرح مکڑا خوشامد کر کے مکھی کو اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے اورمکھی کی جان چلی جاتی ہے ۔ اسی طرح مکار لومڑی اور کوے کی کہانی بھی ہمارے لئے سبق آموز ہے ، جس میں لومڑی ، کوے کی بے جا تعریفیں کر کے اسے خوش کر دیتی ہے اور کوا کائیں کائیں کرتا ہے تو اپنے پنیرکےٹکڑے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔
CLICK HERE FOR FULL TOPIC

*

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post