اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
نحمده ونصلى على رسوله الكريم - اما بعد
فعوذ با الله من الشيطن الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
صدر محفل اور معزز حاضرین !
آج کی اس محترم محفل میں مجھے جس موضوع
پر لب کشائی کی اجازت دی گئی ہے اس کے الفاظ ہیں۔
"امت
پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے"
آج کے موضوع کا انتخاب مولانا الطاف حسین
حالی کے اس شعر سے لیا گیا ہے۔
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت تری آکے عجب وقت پڑا ہے
دیکھنا یہ ہے کہ امت پر کون سا ایسا عجیب وقت آپڑا ہے کہ دعا کے سوا کچھ سجھائی نہیں ۔ یہ شعر آج سے سو سال پہلے کا کہا ہوا ہے ۔ لیکن اس شعر کا اطلاق آج کے دور پر بھی بخوبی ہوتا ہے ۔ امت مسلمہ جب سے زوال پذیر ہوئی ہے ۔ اس وقت سے لے کر اب تک مسلمان سنبھل نہیں سکے ۔ کبھی وقت تھا کہ مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کے سموں سے قیصر و کسری کے ایوان لرزا کرتے تھے ۔ بغداد میں عباسی حکومت کا دور اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی فنون کے عروج کا دور ہے۔ جب اسلامی رصد گاہوں میں نئے جہان اور علم کے نئے افق تلاش کئے جارہے تھے۔ مسلمانوں کے منجموں نے جو حقائق آج سے برسہا برس پہلے دریافت کئے اسے یورپ کے علم کے متلاشی لے اڑے اور بغداد عیش و عشرت کا مرکز بن گیا ۔ جن عباسی خلفا کے دربار میں علمی بحثیں ہوتی تھیں وہاں رقص و سرور کی محفلیں سجنے لگیں پھر ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مسلمانوں کیلئے کوئی جائے پناہ نہ رہی۔
جناب صدر
!
ہسپانیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں
کی حکومت کے دوران میں یورپ پر علم کے دروازے کھل گئے لیکن جب اموی خلفاء نے حرم پالنے
شروع کئے تو ملکہ ازابیلا اور فرڈی ننڈ ان پر خدا کے عتاب کی طرح ٹوٹ پڑے۔ ہندوستان
کی حالت دیکھئے عہد سلاطین کے بعد مغل بادشاہ بابر نے ہندوستان کو فتح کیا۔ پانچ سو
سال تک مغل حکومت قائم رہی۔ پھر مغل شہنشاہ عیش و عشرت میں پڑ گئے اور ان کے ہاتھ سے
حکومت چھن گئی۔ اقبال نے طنزا" پوچھا ۔
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا
ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو۔
صدر ذی احتشام
!
امت مسلمہ پر ایک ایسا وقت بھی آپڑا کہ
دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کی آزاد اور خود مختار حکومت نہ رہی۔ ہندوستان سے لے کر
الجزائر، انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی، مصر، سوڈان سب پر سامراجی طاقتوں نے قبضہ کر لیا
اور حکمران قوم محکوم بن گئی۔
صدر محترم
!
آج مسلمان پہلے سے کہیں زیادہ خوار و زبوں حال ہیں۔ روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد امریکہ سپر پاور کے روپ میں سامنے آیا یعنی اب امریکہ ہر ملک سے اپنی مرضی کی بات منوا سکتا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کی حکومت کی صورت میں مسلمانوں کے دلوں کو فگار کر رکھا ہے۔ آج مسلمان ہر جگہ گھائل ہیں ان کو بری طرح قتل کیا جا رہا ہے۔ کشمیر خطہ جنت نظیر مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو رہا ہے۔ فلسطین میں فلسطینیوں کو گھروں سے نکالا جا رہا ہے۔ عراق اور لیبیا کو دہشت گرد ممالک قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا بھارت بابری مسجد شہید کر کے کشمیر میں مسلمانوں کا خون بہا کر اور اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگ کر بھی دہشت گرد قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ اس لئے کہ امریکہ جس کو چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔ اس صورت حال پر یہی عرض کرنے کی جسارت کروں گی۔
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق کرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
صدر محترم
!
آج امت مسلمہ مصائب میں گھری ہوئی ہے۔
خون مسلمان ارزاں ہو گیا ہے۔ مسلمان اپنی تہذیب اپنا تمدن بھلا چکے ہیں۔ مسلمانوں نے
غیر ملکی نظریات اور تہذیب اختیار کر کے تباہی و بربادی کو دعوت دی ہے نوجوان مسلمان
اپنے تہذیب و تمدن سے بیگانہ ہو گئے ہیں۔ ان کے معیار بدل گئے ہیں۔ تہذیبی و اخلاقی
قدریں بدل گئی ہیں۔ غیر ملکی ثقافتی یلغار نے نئی نسل کو سوچ اور فکر سے محروم کر دیا۔
مسلمان قرآن و حدیث سے کٹ گئے ہیں۔ مسجدوں میں دو رکعت کے امام سپیکروں پر گلا پھاڑ
پھاڑ کر چیخ و پکار تو کرتے ہیں لیکن قرآن و حدیث نہیں سناتے۔ مسلمانوں کے علماء کفر
کے فتوے بانٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مدرسوں سکولوں اور کالجوں یونیورسٹیوں میں روایتی
تعلیم جاری ہے جس سے ذہن کند ہو گئے ہیں۔
اس وقت امت مسلمہ اپنے زوال
کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ اس کے بعد مکمل تباہی ہے۔ پھر اس امت کی راکھ سے نئی نسل
ابھرے گی جن کے ہاتھوں میں قرآن ہونگے ۔ زبانوں پر حدیثیں رواں ہوں گی۔ ہاں یہی لوگ
امت مسلمہ کو گمراہی اور جہالت کے اندھیروں سے نکالنے والے ہونگے۔ یہ وہ لوگ ہونگے
جو قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ محض دعاؤں سے کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں حضور اکرم
کی تعلیمات کو زندہ کرنا ہو گا بے عمل ملاؤں سے مسجدیں خالی کرانا ہوں گی۔ کفر کے فتوے
لگانے کی بجائے ایمان کی مشعل روشن کرنی ہوگی۔ آج واقعی امت مسلمہ تباہی و بربادی سے
دوچار ہے۔ اور یہ مصرعہ جو آج کے مذاکرے کا موضوع ہے۔ ہمیں غور و فکر تقدیر اور عمل
کرنے کی دعوت دیتا اور ہمیں خبردار کرتا ہے کہ ۔
”تمہاری
داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں"