تقریر ۔۔ روزہ اور اس کی روح
صدر ذی وقار !
آج کی اس محفل پاک میں مجھے
جس موضوع پر لب کشائی کی دعوت دی گئی ہے ۔ اس کے الفاظ ہیں ۔
"روزہ
اور اس کی بنیادی روح"
اس سے پہلے کہ میں آج کی تقریر
کا آغاز کروں نبی آخر الزمان حضور اکرم کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں جن کے طفیل
ان کی امت کو رمضان المبارک کا تحفہ ملا ۔ ان کی شان لفظوں میں بیان کرنی ممکن نہیں
۔
ہے مجھے پیروی سید لولاک پر فخر
مرا رہبر مری منزل مرا رستہ دیکھو
بے یقینی کے اندھیروں میں بھٹکنے والو!
اک ذرا تم بھی در سید والا دیکھو
جناب والا !
اسلام کی تمام عبادت کے پیچھے
ایک فلسفہ ہے ۔ حج ، نماز اور زکوۃ معاشرتی زندگی میں یک جہتی ، اخوت اور مساوات کا
درس دیتے ہیں ۔ روزہ نفس کشی اور صبر و استقامت کا سبق سکھاتا ہے ۔ روزے سے قوت ارادی
میں مکمل انہماک پیدا ہوتا ہے ۔ طبی نقطہ نظر سے بھی روزہ جسمانی صحت و تندرستی کے
لئے ضروری ہے ۔ جس طرح مشینری کو چالو حالت میں رکھنے کے لئے اور اس کی کارکردگی بہتر
بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی اوور ہالنگ کروائی جائے اس طرح جسم کی مشینری کو درست
حالت میں رکھنے کے لئے اس کی اور رہالنگ کی ضرورت ہے اور یہ کام روزہ کرتا ہے ۔
صدر محترم !
دیکھا جائے تو اللہ کریم کو
ہمیں بھوکا پیاسا رکھ کر کوئی خوشی نہیں ہوتی اللہ پاک
نے رمضان المبارک کے متعین روزے مسلمانوں کے
فائدے کے لئے رکھے ہیں۔ یہ تمام ریاضت اور مشقت اصلاح و تزکیہ نفس کے لئے ہے تاکہ انسان
خواہشات کا غلام نہ بنے بلکہ تمام خواہشات اس کی غلام بن کر رہیں یہ خدا تعالیٰ کے
احکامات کی فرمانبرداری کی ایک ادنیٰ دلیل ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی پابندی کرتے
ہوئے خدا کی حلال کی ہوئی اشیاء کو دن کی روشنی میں نہ کھایا پیا جائے۔ بیوی مرد پر
حلال ہے لیکن روزہ کی حالت میں اس سے مباشرت حرام ہی نہیں گناہ ہو جاتی ہے۔ چونکہ خدا
تعالیٰ انسانی ضرورتوں اور جبلی خواہشات سے آگاہ ہیں اس لئے رمضان المبارک کے مہینے
میں ہر چیز دن میں حرام کی گئیں رات کو حلال کردی گئیں کیونکہ اللہ کریم تنگی نہیں
فراخی چاہتے ہیں۔
جناب صدر !
اگر دیکھا جائے تو رمضان المبارک
کے مقررہ دنوں کے روزے رکھنے میں بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔ یہ نہیں قرار دیا گیا کہ سال
کے جن دنوں میں چاہو تمہیں روزے رکھ لیا کرو بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ سال میں صرف ایک
ماہ مقرر کر دیا گیا ہے اس کے دنوں کی گنتی کے مطابق روزے رکھ لیا کرو خواہ چاند ۲۹ دن
کا ہو خواہ تمہیں دن کا۔ ایک چاند سے دوسرے چاند کے طلوع ہونے تک روزے فرض کئے گئے
ہیں۔ مہینہ مقرر ہونے کی بنا پر مسلمانوں میں یک جہتی پیدا ہوئی ہے۔ یہ اللہ کریم کی
بڑی کریم النفسی ہے کہ اس نے عبادات کے وقت اور دن مقرر کر دیئے ہیں تاکہ ہر شخص اپنی
اڑھائی اینٹ کی مسجد الگ نہ بناتا پھرے۔ حج کے لئے مہینہ اور دن مقرر کر دیئے گئے۔
آگے پیچھے عمرہ ہو سکتا ہے حج نہیں۔ اسی طرح رمضان المبارک کے ماہ مقدس کے علاوہ اگر
روزے رکھے جائیں تو روزوں کا ثواب ملے گا۔ لیکن یہ نفلی روزے ہونگے۔ جبکہ ماہ رمضان
کے روزے ہر بالغ مرد عورت پر فرض قرار دیئے گئے ہیں۔ صرف بوڑھوں لاچاروں، مسافروں اور
مریضوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے لئے بھی شرط عائد کردی گئی ہے کہ وہ جتنے
روزے چھوڑیں کسی اور مہینے میں رکھ لیں ان کو فرض روزوں کا ثواب ملے گا جو شخص کسی
مستقل بیماری کی بنا پا یا ضعف کی بنا
پر بالکل روزے نہ رکھ سکے۔ اس کے لئے چھوٹ ہے
کہ وہ ان روزوں کا فدیہ دے لے۔ اس طرح وہ ذہنی طور پر رمضان المبارک کے روزوں میں شریک
رہے گا۔ اور مالی ایثار اسے روزوں کا احساس دلاتا رہے گا۔
جناب والا !
جس طرح دکاندار سال میں ایک
دفعہ کلیرنس سیل لگاتے ہیں اور ان کا مال ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ
کی بھی اس ماہ مقدس میں نیکیوں کی کلیرنس سیل لگاتے ہیں تاکہ گناہ گار آئیں اور روزے
رکھ کر نیکیوں کی لوٹ سیل میں سے اپنا حصہ لے جائیں۔ دنیا کا دستور ہے کہ اشیاء کسی
نہ کسی معاوضے کے تحت فروخت کی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ بھی ثواب نماز حج اور روزے کی
مشقت کے معاوضے کے طور پر عطا فرماتے ہیں جو یہ معاوضہ ادا نہیں کر سکتا وہ ثواب سے
محروم رہتا ہے۔
صدر محترم !
رمضان المبارک میں ایک رات
ایسی بھی آتی ہے جسے قرآن عظیم نے لیلتہ القدر کا نام دیا ہے۔ اس رات اللہ تعالیٰ نے
قرآن پاک نازل فرمایا۔ اس رات کی عبادت کو ہزار سالوں کی راتوں کی عبادت کے برابر قرار
دیا گیا ہے۔ اس رات کو فرشتے آسمان سے نازل ہوتے اور عبادت گزاروں پر فجر تک خدا کی
طرف سے سلامتی کا پیغام پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں
میں سے کوئی ایک رات ہے۔ یہ رات کسی پر منکشف نہیں کی گئی اس لئے کہا گیا ہے کہ رمضان
کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرو۔
صدر ذی شان !
روزہ سے تقویٰ، احساس بندگی،
اطاعت اللہ و اطاعت رسول، ضبط نفس کی تربیت، غریبوں سے ہمدردی اور طبیعت میں صبر و
تحمل جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں روزہ ایک بے ریا عبادت ہے۔ نبی کریم نے اس کی بہت تاکید
فرمائی ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر
دوں گا جس کا اجر خود خدا دے اس کا کوئی شمار ہو سکتا ہے۔
جناب والا !
آئیے ہم سب رمضان المبارک
کے روزے رکھ کر وحدت دینی کا آفاقی مظاہرہ کریں اور اس کی بدولت باقی دنوں میں حلت
و حرمت کا فرق دور رکھنے کا جذبہ پیدا کریں ۔ روزہ کی بنیادی روح عبادت و پاکیزگی ہے
۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
وما علينا الا البلاغ