آزادی ایک نعمت ہے
صدر ذی احتشام و
معزز خواتین و حضرات !
آج 14 ا گست کا دن ہے ۔ جو
ہمارے لئے ان گنت خوشیاں اور مسرتیں لے کر آتا ہے آج ہم اس دن کو تزک و احتشام اور
شایان شان طریقہ سے منا رہے ہیں ۔ آج کے دن ہم نے نوے سالہ غلامی سے نجات حاصل کی تھی
۔ آج کے دن غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی تھیں ۔ اور آج کے دن ہم نے نئی جدوجہد ، نئے عزم
سے قومی زندگی کا آغاز کیا تھا ۔ آج کے دن ہم نے اپنی منزل کا سراغ پایا تھا ۔ آج کے
دن قافلہ حریت اپنی منزل تک پہنچا تھا ۔
جناب صدر ! ہم نوجوان ہیں
اور ہم نے آزاد وطن کی آزاد فضاؤں میں آنکھ کھولی ہے ۔ آزادی کی قدر پوچھنا ہو تو ان
گمنام شہیدوں سے پوچھیں جنہوں نے خاک وطن کو بوسہ دینے کے لئے جانیں نثار کیں ۔ آزادی
کی قدر و قیمت ان بے گور و کفن لاشوں سے پوچھیں ۔ جنہیں آزادی کا مطالبہ کرنے پر گولیوں
کا نشانہ بنایا گیا ۔ اُن کے سینے سنگینوں کے سامنے سپر بن گئے ۔ لیکن انہوں نے آزادی
کے مطالبے سے منہ نہ موڑا ۔ آزادی کی نعمت اس پرندے سے پوچھیں جسے کسی ظالم صیاد نے
عین شباب کے عالم میں پنجرے میں قید کر دیا ہو ۔ اور آزادی کے حصول کے لئے اپنا سر
پنجرے کی بے رحم سلاخوں سے مار مار کر سر پیچ پیچ کر زخمی کر چکا ہو ۔ آزادی کا احساس
الجزائر کے اُن حریت پسندوں سے پوچھیں جنہوں نے فرانس کے ٹینکوں سے سر ٹکرایا ۔
جناب صدر ! آزادی کا سودا
خون کی قیمت دے کر کیا جاتا ہے ۔ آج افغان حریت پسند آزادی کے لئے جو جنگ لڑ رہے ہیں
۔ کبھی ایسی ہی جنگ ہمیں بھی انگریزوں کے مقابلے میں لڑنی پڑی تھی ۔ پاکستان کی تاریخ
گواہ ہے کہ مسلمانان ہند نے ایک طرف تو انگریزوں سے اپنی آزادی کا حق چھیننے کی جدوجہد
کی دوسری طرف انہوں نے ہندووں کی عیاری کا مقابلہ کیا ۔ جو ہندوستان کی آزادی تو چاہتے
تھے لیکن ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو آزادی نہیں دینا چاہتے تھے۔ آج دس کروڑ
مسلمان ہندوستان میں محکومی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
ہر سال ہندو سامراج اُن کے خون سے ہولی کھیلتا ہے ۔ اگر
آج پاکستان نہ بنا ہوتا اور اگر آج ہم آزاد نہ ہوتے تو ہندووں کی بے رحم اکثریت کا
شکار ہو چکے ہوتے ۔ غلامی کی سوسالہ زندگی آزادی کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے ۔
صدر محترم ! آج ہم آزاد ہیں
۔ آج کے دن کا اہم ترین تقاضہ یہ ہے کہ ہم رب جلیل کے سامنے سجدہ ریز ہو کر آزادی کی
اس نعمت کا شکریہ ادا کریں ۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے آزادی کی صحیح قدر
نہیں کی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادی کے بعد ہمارے ملک میں اسلامی نظام نافذ ہوتا
ہمارا قومی شخص بیدار ہوتا اور ہم ایک مضبوط معشیت کے حامل ہوتے ۔ لیکن افسوس نہ تو
ہم نے آزاد معشیت ہی اختیار کی نہ اسلامی نفاذ کی طرف مخلصانہ کوشش کی ۔ قائد اعظم
کی رحلت کے بعد پاکستان کو بار بار آمریت کا سامنا کرنا پڑا ۔ ملک آہستہ غیر ملکی امداد
کی صعوبتوں میں جکڑتا چلا گیا ۔ بغیر ملکی نظریات نے ہمیں پھر سے ذہنی غلام بنانا شروع
کیا ۔ ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی ذہنی طور پر غلام ہوتے چلے گئے ۔ لیکن یہ صورت حال ہمیشہ
قائم رہنی چاہیے ؟ کیا ہمارا ملک ہمیشہ اسی طرح دوسروں کا طفیلی ملک بن کر زندہ رہے
گا ؟ کیا ہم چند ٹکڑوں کو ڈیکٹروں کی امداد کے عوض اپنے ملک کو اسی طرح رہن رکھتے رہیں
گے ؟ اس کا جواب نفی میں ہو گا ۔ ہم پاکستان کی آزادی کا سودا کبھی سیم و زر سے نہ
کریں گے ۔ کبھی بڑے لالچ اور دباؤ کے سامنے نہیں جھکیں گے ۔ ہماری یہ فضائیں یہ سر
بہ فلک پہاڑ ، یہ سرسبز و شاداب وادیاں ، یہ ہرے بھرے کھیت یہ گنگناتی ندیاں اور بہتے
دریاؤں کی روانی اسی طرح سے آزاد رہے گی ۔ لیکن ضروری ہے۔
کہ ہم آج کے دن اس عہد کو دہرائیں ۔ جو ہم نے خدا تعالیٰ
سے کیا تھا کہ پاکستان مقدس اور پاکیزہ فضاؤں کا دیس ہو گا ۔ یہاں قرآن و سنت کے علاوہ
کوئی دوسرا نظام ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ۔
جس کی معشیت معاشرت اور سیاست قرآن کی پابند ہو گی ۔
جناب صدر ! ہمیں یہ فراموش
نہیں کرنا چاہیئے کہ آزادی ایک نعمت ہے اگر ہم نے اس نعمت کی قدر نہ کی تو یہ یاد رکھئے
کہ نعمت عطا کرنے والا اپنی نعمت واپس بھی لے سکتا ہے ۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے
کہ ہماری زندگیوں میں ایسا دن کبھی نہ آئے اور ہمارے آزاد وطن کی آزاد فضائیں یونہی
آزاد رہیں ۔ آمین
با عزت اور غیرت مند قومیں
اپنی نقد جاں دے کر بھی آزادی کا سودا کر لیا کرتی ہیں ۔ ہمیں تو صرف اسی قدر کرنا
ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں اور نئی نسل کو اس عظیم نظریے سے روشناس کرائیں جس کے تحت ہم
نے پاکستان حاصل کیا تھا ۔ یہ عظیم نظریہ دو قومی نظریہ ہے ۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا
۔
"وہ
کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ۔ وہ کون سی
چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ۔ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس اُمت کی
کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ۔ وہ رشتہ ، چٹان ، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن مجید ہے
"۔
جناب صدر ! پاکستان کی آزادی
کا تحفظ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان میں رہنے والے لوگ اپنی پہچان اپنی شناخت
صرف ایک رشتہ سے کروائیں اور وہ ہے اسلامی اخوت کا رشتہ ۔ ہم نہ سندھی ہیں نہ بلوچی
، نہ پنجابی ہیں ، نہ پختون ، سب مسلمان اور سب پاکستانی ہیں ۔ صوبائی تعصبات امر بیل کی طرح سے ہیں جو
شجر آزادی کا رس چوس کر اسے ٹنڈ منڈ کر دیتے ہیں اور
اس کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں اور مخالف ہواؤں کا ایک مختصر سا جھونکا بھی نہیں برداشت
کر سکتا ۔ ہمیں آج کے دن یہ سوچنا ہے کہ ہم رنگ و نسل کے مصنوعی امتیازات سے بلند ہو
کر اپنا ملی تشخص قائم کریں گے ۔ تاکہ آزادی کا اہم تقاضا پورا ہو سکے ۔ ہمیں یہ الفاظ
یاد رکھنے چاہئیں کہ
"آزادی
کا مطلب بے لگام ہو جانا نہیں ہے ۔ آزادی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں اور مملکت
کے مفادات کو نظر انداز کر کے آپ جو چاہیں کر گزریں ۔ آپ پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی
ہیں اور اب پہلے سے کہیں زیادہ ، اب یہ ضروری ہے کہ آپ ایک منظم و منضبط قوم کی طرح
کام کریں ۔ اس وقت ہم سب کو چاہیے کہ تعمیری جذبہ پیدا کریں ۔ جنگ آزادی کے دنوں کی
جنگ جوئی کی اب ضرورت نہیں رہی ۔ آزادی حاصل کرنے کے لئے جنگ جویانہ جذبات اور جوش
و خروش کا مظاہرہ آسان ہے ۔ اور ملک و ملت کی تعمیر کہیں زیادہ مشکل ۔"
آج کے دن ہمیں یہ عہد کرنا
ہو گا کہ ہمارا ہر قدم آزادی کے تحفظ اور اپنے ملی تشخص کے استحکام کی خاطر اٹھے گا
۔ آج کے دن عساکر پاکستان اور نوجوانان ملت کو بھی یہ عہد کرنا ہو گا کہ آزادی کے تحفظ
کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔ خدا تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر
ہو ۔ آمین
پاکستان زندہ باد
قائد اعظم پائندہ باد