حضرت صدیق اکبر کا مرتبہ
کون کر سکتا ہے اندازہ تیری خدمات
کا
سید کون و مکاں کے دل میں ہے ان کا حساب
کارنامے آج تک زندہ ہیں تیرے عہد کے
آج تک ہے جھوٹی نبوت کے لرزیدہ سراب
جناب صدر گرامی قدر ! آج کی اس معزز و
محترم محفل میں مجھے خلیفہ راشد حضرت
ابو بکر صدیق کے مناقب پر روشنی ڈالنی ہے ۔ میری تقریر کا عنوان ہے ۔
حضرت صدیق اکبر کا مرتبہ
حضرت ابو بکر صدیق رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے سب سے بڑے معتمد ساتھی
تھے ۔ انہوں نے سفر و حضر دکھ سکھ سب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا جب
دشمنان دین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در پے آزار ہوئے تو حضرت صدیق اکبر
نے ان کا ساتھ دیا ۔ جب مشرکین مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا ۔ ایسے موقع پر جب کہ قدم قدم پر جان جانے کا خطرہ تھا حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ساتھی
حضرت ابو بکر صدیق قدم بہ قدم شانہ بہ شانہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ انہوں
نے غار ثور میں ساتھ دیا ۔ جناب
والا ! دوست کی پہچان مشکل کے وقت ہوتی ہے ۔ حضرت ابو بکرصدیق حضور صلی اللہ علیہ وسلم
سے حد درجہ محبت کرتے تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کے نزدیک ان کا بڑا مرتبہ تھا انہوں
نے فرمایا ۔
مہر نبی کے دو آسمانی اور دو زمینی وزیر
ہوتے ہیں ۔ میرے آسمانی وزیر حضرت جبرائیل
علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ اسلام ہیں ۔ اور زمینی وزیر ابوبکر و عمر رضی اللہ
تعالیٰ عنہما ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر نبی کے خصوصی امتی ہوتے
ہیں میرے خصوصی امتی حضرت عمر اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما
ہیں ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پختہ
الوداع کے موقع پر الیوم اکملت کی
آیت مبارکہ نازل ہوئی اور اس پر وحی
مبارک کا
سلسلہ بند ہو گیا تو مزاج شناس
رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر سمجھ گئے کہ اب حضور کے وصال کا وقت آگیا
ہے چنانچہ آپ یہ آیت مبارکہ سن کر آب دیدہ ہو گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ان کو تسلی دی-
یوم اکملت لکم پر تو اکیلا رو پڑا
تو نے کیا کیا راز سربستہ کئے ہیں بے
حجاب
جناب صدر ! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کے وصال کے بعد جب آپ پر خلافت کی ذمہ داریاں ڈالی گئیں تو آپ بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے کہ میرےنازک کندھے بار
خلافت نہیں اٹھا سکتے ۔ لیکن امت کے متفقہ فیصلے کو انہوں نے تسلیم کیا ۔ یہ وقت عالم
اسلام پر بڑا بھاری تھا اور خلیفہ اول کو بڑے مشکل فیصلے کرنے تھے۔ سب سے پہلے تو جھوٹے مدعیان
نبوت کا مسئلہ در پیش آیا وہ آپ نے ان جھوٹے
مدعیان نبوت کی سرکوبی کو اولین اہمیت دی پھر
منکرین زکوة کا مسئلہ پیش آیا بعض صحابہ
رضوا الله اجمعین نے ڈھیل دینے کی تجویز پیش کی لیکن دینی معاملات میں وہ درگذر کے
قائل نہ تھے انہوں نے منکرین زکوة کے خلاف جہاد کیا اور ہمیشہ کے لئے یہ اصول طے
کیا کہ ارکان اسلام میں سے یا عقائد اسلام میں سے کسی ایک رکن کی خلاف ورزی ارتداد
ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتدین کا سر کچلنے کی ہدایت کی ہے ۔
صدر محترم ! حضرت ابو بکر صدیق حضرت بی
بی عائشہ کے والد مکرم تھے ۔ اور
حضرت عائشہ صدیقہ حضور کی سب سے محبوب زوجہ تھیں اس لئے بھی حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے دل میں ان کیلئے احترام اور محبت کا جذبہ تھا ۔ حضرت بی بی عائشہ فرماتی
ہیں کہ ایک دفعہ وہ حضور کے پاس تشریف فرما تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں
نے سوال کیا کہ آسمان پر جتنے ستارے ہیں کیا کسی شخص کی نیکیاں اس کے برابر ہو
سکتی ہیں ۔ آپ نے فرمایا ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ۔ حضرت عائشہ یہ سن کر
افسردہ سی ہو گئیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے بابا حضرت ابو بکر
صدیق کی زمین کے ذرات کے برابر نیکیاں ہیں ۔
جناب والا ! حضرت ابو بکر صدیق کا یہ کارنامہ
بھی تاریخ میں سنہرے حروف میں
لکھا جاتا ہے کہ جب جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ شہید ہو گئے تو خطرہ پیدا ہوا کہ اگر
اسی طرح حفاظ کام آتے رہے تو کہیں قرآن ان کے سینوں میں ہی دفن نہ ہو جائے
چنانچہ انہوں نے زید بن حارثہ کو اس کام پر مامور کیا کہ وہ قرآن پاک کے بکھرے ہوئے
اجزاء کو جمع کریں چنانچہ قرآن کی جمع و تدوین کا کام بھی آپ ہی کے عہد میں ہوا
۔
صدر محترم ! جب حضرت ابو بکر صدیق کو خلیفہ
منتخب کیا گیا تو اس موقع پر آپ
نے مسجد میں جا کر امت مسلمہ سے بیعت
لی اور پھر جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ ان کے
طرز حکومت کی وضاحت کرتا ہے آپ نے ارشاد فرمایا
۔
"لوگو
! میں تمہارا حاکم بنایا گیا ہوں حالانکہ تم سے بہتر نہیں ہوں اگر میں ٹھیک چلوں
تو میری مدد کرنا اگر غلط چلوں تو ٹھیک کر دینا ۔ سچ امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے اور
تم میں ہے جو کمزور ہے میرے نزدیک اس وقت قوی ہے جب تک اس کا حق نہ دلوا دوں
۔ کوئی شخص جہاد ترک نہ کرے کیونکہ اللہ جہاد ترک کرنے والوں کو ذلت دیتا ہے ۔ میری
اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں"
۔
سر براہوں کے لئے مینارہ نور کا درجہ رکھتا
ہے ۔ ہم لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین
کا دم تو ضرور بھرتے ہیں لیکن ان سے سچی محبت
نہیں رکھتے ورنہ ان کی زندگی اور افکار
روشن راستوں کی طرح ہماری زندگی کو روشنی بخشتے
ہیں وہ جس نے دین کے دشمنوں کا قلع
قمع کیا ہے جس نے اپنے خطبے میں جہانبانی کے اصول مقرر کئے ہیں ہم ان سےرہنمائی لینے
کی بجائے اغیار سے افکار لیتے ہیں ۔ اسلئے ذلیل و خوار ہوتے ہیں ۔ حضرت ابو بکر
صدیق کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہوں گا ۔
لڑوں فتنہ گروں سے تیرے لڑنے کی مثال
جس طرح اڑتے پرندوں پر جھپٹتا ہے عقاب
آج تک دنیا میں حاوی ہے ترا پہلا جہاد
آج دنیا میں جاری ہے تیرا پہلا خطاب
جناب صدر ! حضرت ابو بکر صدیق فہم و تدبر
بردباری عشق رسول اوراستقامت و استقلال کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت قریبی
نسبت رکھتےتھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق کی حکومت میں جمہوریت کی ساری خوبیاں موجود ہیں
۔ ان کی خدمت
میں ملوکیت کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ ان کا انداز حکمرانی عوامی سے بھی کچھ زیادہ تھا
۔ آج لوگ عوامیت کا نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بناتے اور حکومت کیلئے مغربی جمہوریت
کو مشعل راہ بناتے اور معیشت کے لئے سوشلزم کو راہنما اصول قرار دیتے ہیں ۔
ان سے گزارش ہے کہ وہ ذرا صدیق اکبر کے عہد مبارک کو دیکھ لیں ان کو کسی دوسرے
ازم کی ضرورت نہ رہے گی ۔ لیکن ہماری محبت ان پاک ہستیوں سے صرف دعوی
کی حد تک ہے ۔ ہماری نظروں کا مرکز کہیں اور ہے ۔ خدا تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوا
اللہ اجمعین کے ایام سچے جذبے سے منانے اور ان کے افکار پر عمل کرنے کی توفیق
دے ۔ آمین ۔ مختصر عرض ہے ۔
تو میرے ماں باپ سے بڑھ کر کہیں مجھ
کو عزیز
تجھ پر لکھنا بھی عبادت تجھ کو پڑھنا
بھی عبادت