ڈینگی ۔۔۔ اسباب اور بچاؤ کے طریقے
ابتداۓ آفرینش سے ہی انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوتا چلا
آیا ہے۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اور اللہ تعالی نے اسے عقل و شعور سے نوازا
ہے۔اس لیے جنگلوں کے زمانے ہی سے اس نے ان بیماریوں کا علاج بھی شروع کر دیا تھا۔
ظاہر ہے کہ یہ علاج زیادہ تر جنگلی جڑی بوٹیوں سے ہی کیا جا تا تھا۔ جوں جوں انسان
ترقی کرتا گیا ، تہذیب و تمدن میں ترقی ہوئی ،صنعتی ترقی کی وجہ سے ہر طرف صنعتوں
کا جال پھیلا تو طرح طرح کے امراض نے انسانوں کو آگھیرا، خصوصاً وبائی امراض تو
بعض قدیم تہذیبوں کی مکمل تباہی کا باعث بنیں ۔ ان وبائی امراض میں جانوروں کا
کردار بڑا اہم رہا، حالانکہ اللہ تعالی نے کئی جانوروں کو انسان کا ماتحت بنا کر
اس کی خوراک ، لباس اور کام کاج کی سہولتوں کے لیے نعمت بنایا ہے ،لیکن اس کے ساتھ
ساتھ کچھ جانور انسانوں کیلئے خطر ناک اور سخت نقصان دہ بھی ثابت ہوۓ ہیں۔ طاعون
جو کہ ایک نہایت ہی قدیم بیماری ہے جو کرہ ارض پر خصوصاً یورپ ، چین اور جنوبی
ایشیا کے بعض ممالک میں کروڑوں افراد کی ہلاکت کا باعث بن چکی ہے، اس بیماری کے
پھیلانے کا اصل سبب چوہے ہیں۔ یہ بیماری صدیوں تک لا علاج رہی مگر سائنسی ترقی کی
وجہ ے اس مرض پر مکمل طور پر قابو پایا جا چکا ہے۔
ملیریا بھی ایک ایسا ہی وبائی مرض ہے جو زمانہ قبل از مسیح سے ہی
انسانوں کا شکار کرتا چلا آرہا ہے۔ زمانہ قدیم میں جب اس مرض کا علاج دریافت نہیں
ہوا تھا۔ اس بیماری سے کثیر تعداد میں انسانی اموات ہوتی تھیں ۔ اس مرض کو پھیلانے
کا باعث بھی حشرات الارض میں سے ایک کیڑا ہے جو مچھر کہلاتا ہے۔ مچھر اور ملیریا
کا ذکر قدیم تواریخ میں بھی ملتا ہے ۔ تاریخ کا عظیم فاتح سکندراعظم ، جو پوری
دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلا تھا اور آدھی دنیا کو فتح کرنے کے بعد
جب اگلی مہم کے لیے روانہ ہونے لگا تو مچھر کے کاٹنے
سے ملیریا میں مبتلا ہو کر عین جوانی کے عالم میں چل بسا۔ نمرود جس نے خدائی کا
دعوی کیا تھا یہ ایک مچھر ہی تھا جس نے اس کی ناک میں گھس کر اسے ہلاک کیا تھا اور
اس کی خدائی کا ساراغرور خاک میں ملا دیا تھا۔
مچھر اور انسان کی دشمنی ازل سے ہی آرہی ہے۔ مچھر کہنے کوتو
ایک ننھا اور معمولی ساحشرہ ہے لیکن یہ رات کے وقت لوگوں کو اس قدر ستاتا ہے کہ ہر
مذہب اور ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے اس کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ یہ نہ صرف مختلف
بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتا ہے بلکہ راتوں کو مخلوق خدا کی نیند یں برباد کرنے
کا کام بھی بخوبی سرانجام دیتا ہے ۔ مچھروں کو بھگانے بلکہ ان کی نسل کوختم کرنے کے
لیے بڑے بڑے منصوبے تیار کئے جاتے ہیں۔ طرح طرح کی دوائیاں تیار کی جاتی ہیں کہ ان
کی بو سے مچھر بھاگ جائیں لیکن مچھر ہیں کہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
حیرانی کی بات ہے کہ اس قدر سائنسی ترقی اور کیڑے مار دوائیوں کے باوجود مچھر موجود
ہیں۔امیر غریب ادنٰی اعلی، بچے بوڑھے کوئی بھی اس کے وارسے محفوظ نہیں۔ اردو ادب
میں مچھر پرکئی مضامین لکھے گئے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی ہوں یا وقار انبالوی ، سب نے
اپنے اپنے انداز میں مچھر کی" اہمیت" اور اس کے " کارناموں"
پر روشنی ڈالی ہے ۔ خواجہ حسن نظامی ایک
مچھر کی زبانی حضرت انسان سے یوں مخاطب ہیں۔
"جناب ہمت ہے تو مقابلہ کیجئے ۔ ذات صفات نہ دیکھئے۔ میں
کالا سہی ، بدر نق سہی، نیچ ذات اور کمینہ سہی مگر یہ
تو کہئے کہ کس دلیری سے آپ کا مقابلہ کرتا ہوں اور اور کیوں کر آپ کی ناک میں دم
کرتا ہوں۔
اور اسی مچھر کی تعریف میں وقار انبالوی لکھتے ہیں:
”خدا کی قسم! ایسے
خوف ناک مچھر میں نے ساری زندگی میں نہیں دیکھے ۔معلوم ہوتا ہے یا تو لا ہور کار
پوریشن نے ان کی افزائش و پرورش پر خاصی محنت کی ہے یا پھر ان کا سلسلہ نسب اس پیشہ
و نمرود سے ملتا ہے جو نشہ شجاعت میں جھومتا اور رجز پڑھتا ہوا نمرود کے نتھنے میں
گھس گیا تھا اور تاریخ کے صفات پر تابد زندہ رہے گا"۔
فیض لدھیانوی نے مچھر کو منظوم " خراج " یوں پیش
کیا ہے ۔
قیامت ہے کہ مچھر کاٹتے ہیں دو چا ر نہیں اکثر کاٹتے ہیں
ستانے میں مزہ
آتا ہے
ان کو خوشی کے گیت گا کر کاٹتے ہیں
ہمارے خون میں لذت ہے شاید نہیں تو کیوں ستم گر کاٹتے ہیں
مچھر
چھ ٹانگوں اور دو پروں پر اڑ نے والا نازک سا کیڑا ہے جو دنیا کے ٹراپیکل اور نیم
ٹراپیکل علاقوں میں بکثرت پایا جا تا ہے جیسے پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش
، ملائیشیا اور انڈونیشیا وغیرہ مچھروں کے زندہ رہنے اور افزائش نسل کے لیے گرم
مرطوب آب و ہوا کے ساتھ بارشوں کا ہونا بھی ٰضروری ہے۔ 28 سے 35 کا درجہ حرارت
مچھروں کو بہت پسند ہے ۔مئی اور جون کی سخت گرمی میں یعنی 40 سے زیادہ درجہ حرارت
والی خشک آب و ہوا میں مچھروں کے مر جانے کی وجہ سے ان کی تعداد کم رہ جاتی ہے اسی
طرح دسمبر جنوری اور فروری کی شدید سردی میں 15 سے کم درجہ حرارت والی خشک آب و
ہوا میں بھی بہت کم مچھر رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں برسات کے موسم یعنی جولائی اگست
اور نو مبر میں مچھروں کی بہتات ہو جاتی ہے۔
مچھر انسان میں ملیریا، ڈینگی اور پیلا بخار جیسی بیماریاں
پھیلاتے ہیں لیکن صرف مادہ مچھر انسانوں میں بیماریاں پھیلاتی ہے ۔ مادہ انوفلیز
مچھر پلازموڈیم جراثیم کے ذریعے انسان میں ملیر یا بخار کی بیاری پھیلاتی ہے جب کہ
مادہ ایڈ یز مچھر ڈینگی وائرس کے ذریعے انسان میں ڈینگی بخار کی بیماری پھیلاتی
ہے۔ ایڈ یز مچھر کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اس کے جسم اور ٹانگوں پر سفید دھبے اور
دھاریاں ہوتی ہیں۔ ڈینگی کاوائرس ماده ایڈ یز مچھر و ں کے اندر کسی بیمار شخص کو
کاٹنے سے آتا ہے۔ یہ وائرس مچھر کے اندر پروش پاتا ہے۔ یہ مچھر لعاب اور لعاب
بنانے والے غدودوں میں پایا جا تا ہے۔ جب وائرس والا مچھر کسی صحت مند حصے کو کاٹتا
ہے تو لعاب کے ذریعے یہ وائرس اس شخص کے خون میں داخل کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اسے
ڈینگی بخار ہوسکتا ہے۔ مادہ انفلیز مچھر پلازموڈیم جراثیم کسی ملیریا کے مریض کو
کاٹنے پر حاصل کرتے ہیں۔ پلازموڈیم مچھر کے اندر پرورش پاتا ہے۔ ڈینگی کی تاریخ
تین چار صدی پرانی ہے۔ ڈینگی دراصل سواہلی
(ایک افریقی زبان ) کے لفظ" ڈنگا" سے نکلا ہے جس کا مطلب
پر اسرار جسمانی کھچاؤ ہے جو ایک شیطانی روح سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک دوسری روایت کے
مطابق یہ ہسپانوی زبان سے مستعار لیا گیا لفظ جس کا مطلب ہے "ہوشیار ہو "۔
چنانچہ ڈینگی کو ایک عرصے تک ایک پراسرار اور شیطانی مرض سمجھا جاتا رہا۔ ڈینگی سے
ملتے جلتے مرض کا تذکرہ قدیم چینی انسائکلو پیڈیا میں موجود ہے۔ واضح انداز میں
تاریخ میں ڈینگی کی وباء کا اولیں ذکر اٹھارویں صدی میں ملتا ہے ۔ 1905 ء میں ایڈیز
کے پھیلاؤ میں ایڈ یز مچھر کے کردار کا پتہ چلا۔ ڈینگی بخار کی شدید ترین قسم خون بہنے
والا ڈینگی بخار ہے جو 1953 ء میں
فلپائن سے رپورٹ کیا گیا۔ پچھلے پچاس سالوں میں دنیا بھر میں اس بیماری کی شدت میں
تیس فیصد اضافہ ہوا ہے ۔اب تک یہ بیماری سو سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے اور
لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں ۔ سفری سہولتوں اور بین الاقوامی تجارت نے اس مرض
کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ کیا ہے ۔ گلوبل وارمنگ بھی اس کے پھیلاؤ میں مدومعاون
ثابت ہوئی ہے۔
پاکستان میں ڈینگی
کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ۔ باقاعدہ طور پر اس کی پہلی رپورٹ 1994 ء میں
کراچی میں ہوئی۔ آہستہ آہستہ یہ مرض پنجاب تک آن پہنچا۔ 2006 ء میں پنجاب کے
دارالحکومت لاہور میں یہ مرض وبائی صورت اختیار کر گیا۔ 2011ء میں لاہور میں ڈینگی
نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور صرف لاہور شر میں ڈینگی سے ہونے والی ہلاکتیں
365 کے قریب تھیں ، جب کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ڈینگی کا شکار ہوے مگر صحت یاب
ہو گئے ۔
ڈینگی مچھر کوئی عام مچھر نہیں ہے۔ عمو نا حشرات گندگی پر
آتے ہیں مگر یہ ایک ایسا انوکھا حشر ہ ہے جو صاف ستھرے پانی کے ذخیرے پر پایا جاتا
ہے۔ لہذا لاکھ کوشش کے باوجود اس کی آماجگاہوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا
جاسکتا۔ کیونکہ صاف پانی بہر حال انسان کی اہم ترین ضرورت ہے۔لہذا اس نفاست پند
مچھر سے بچاؤ کے لیے بھی منفر د اور انوکھے انداز اپنانا ہوں گے ۔ ڈینگی مچھر
عموما گھروں کے باغیچے میں کھڑے پانی ،سڑکوں پر بارش کے پانی ، خالی پلاٹوں میں
موجود پانی اور گھروں میں سٹور رومز کے اندر پڑے کاٹھ کباڑ میں چھپ کر رہتے ہیں۔
یہ پرانے ربڑ کے ٹائروں، روم کولرمیں موجود پانی گملوں میں کھڑے پانی اورایسی ہی
دیگر جگہوں پر پرورش پاتا ہے۔
ڈینگی
مچھر متاثرہ شخص کو جب کاٹتا ہے تو انسان کے جسم سے وائرس اس مچھر میں پہنچ جاتا
ہے- یہ مچھر جب کسی دوسرے صحت مند انسان کو کاٹتا ہے تو وہ صحت مند شخص بھی اس مرض
کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اس طرح یہ مچھر ایک کیریئر ویکٹر کا کام سرانجام دیتا ہے۔
مچھر
کے کاٹنے کے فورا بعد علامات ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ مچھر کے کاٹنے کے تین سے سات
دنوں کے اندر اندر اس مرض کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں جو مرض کی شدت میں اضافہ کے
ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
ڈینگی
بخار حقیقت میں انسان کے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتا ہے۔ انسان کے خون میں
موجود وائٹ بلڈ سیلز جوکہ مدافعتی نظام کا مرکزی حصہ ہیں ان پر حملہ کر کے یہ
وائرس ان کو تباہ کرتا ہے۔ جس سے قوت مدافت کم ہونے لگتی ہے۔علاوہ ازیں یہ پلیٹ
لیٹس کی تعداد کو کم کر دیتا ہے۔ پلیٹ لیٹس انسانی خون میں موجود خاص قسم کے سیلز
ہیں جو کہ خون کو جمنے میں مدد دیتے ہیں۔نارمل انسان میں ان کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے
کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ جب اس مقررہ حد سے تعداد کم ہو جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ
متاثرہ شخص ڈینگی کا شکار ہو چکا ہے۔مرض کی شدت کے ساتھ ساتھ پلیٹ لیٹس کی تعداد
بھی کم ہوتی جاتی ہے ۔ شدید ترین مرض کی حالتوں میں میں یہ تعداد 20٭103 یا اس سے
بھی کم ہو جاتی ہے ہے جس پر بہرونی ذرائع سے پلیٹ لیٹس بنا کر انسانی جسم میں داخل
کرنا پڑتے ہیں۔
پلیٹ
لیٹس کی کمی کے نتیجے میں خون کی بندش کمزور پڑ جاتی ہے اور زخموں سے خون رسنے کے
علاوہ خون کی الٹی ، پیشاب یا پاخانے کے ساتھ خون آنے کی بھی شکایات ہوتی ہیں۔تھوک
اور بلغم میں خون اور کیپلرییز کے پھٹنے کی وجہ سے مسلز کے اندر بھی خون جمع ہو
جاتا ہے جس کے نتیجے میں جسم پر سرخ دھبے نمودار ہوتے ہیں ۔شدید صورتوں میں آنکھوں
اور ناک سے بھی خون جاری ہو جاتا ہے۔ ڈینگی کے مرض کی سب سے بڑی اور اہم علامت تیز
بخار کا وقفوں وقفوں سے ہونا ہے۔ بخار کچھ
دیر تک رہنے کے بعد خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور انسان میں نقاہت پیدا کرتا ہے۔ اس
کی ایک اور بڑی علامت پورے جسم میں درد ہے ۔ خاص طور پر گردن اور دیگر پٹھوں میں
کھچاؤ محسوس ہوتا ہے اور تمام بدن درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ڈینگی کے مریض کے جسم
پر سرخ رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں جو مرض کی شدت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جاتے
ہیں۔ آنکھوں کے پیچھے شدید درد اور سر میں شدید درد ہوتا ہے ۔اور سر چکرانے لگتا
ہے۔ بلڈپریشر نارمل سطح سے گر جاتا ہے اور انسان کو بے تحاشہ کمزوری اور نقاہت
محسوس ہوتی ہے۔
یہ
مرض انسانی جسم میں مائع جات کی کمی کا باعث بنتا ہے اس لیے جسم میں پانی کی کمی
پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کو پورا کرنے کے لئے پانی وافر مقدار میں پینا چاہیے اور جوس
وغیرہ بھی خوراک کے ساتھ لینے چاہئیں۔ ڈینگی کے مریض کی بھوک ختم ہوجاتی ہے اورقے
کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ شدید صورتوں میں جسم کے مختلف حصوں سے خون کا بہنا
شامل ہے جو کہ انتہائی شدید حالتوں میں منظر عام پر آتا ہے بصورت دیگر نہیں ۔
عموما یہ بخار چند دن تک رہنے کے بعد خود بخود ختم ہو جاتا ہے مگر بیماری کی شدید
صورت میں صحت یابی میں مکمل احتیاط اور علاج کے باوجود ڈیڑھ ماہ تک لگ جاتا ہے۔
بچاؤ کے طریقے
ڈینگی
کے علاج اور بچاؤ کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات پر عملدرآمد کرنا سود مند ثابت ہوا
ہے۔
1۔ چونکہ یہ مرض مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے لہٰذا اس سے بچنے کا واحد
طریقہ یہ ہے کہ مچھر سے بچا جائے۔ لہٰذا جن طریقوں سے مچھروں سے بچا جاسکتا ہے وہ
ڈینگی سے بچنے میں بھی کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے بازوؤں، ٹانگوں اور
جسم کے ان حصوں کو ڈھانپنے کا بندوبست کیا جائے
جو عموما ننگے رہتے ہیں ۔ ان میں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت دستانے
اور جرابیں پہننا شامل ہے۔
2۔
علاوہ ازیں ہفتے میں دو بار گھر ، بازاروں ، سکولوں ، کالجوں غرض ہر جگہ پر مچھر
مار سپرے کیا جانا چاہیے تاکہ اس موذی جانور کے شر سے نجات حاصل کی جا سکے۔ اس کے
ساتھ ساتھ باہر نکلنے سے پہلے جسم کے ننگے حصوں یعنی ہاتھوں پاؤں وغیرہ پر مچھر
بھگاؤ لوشن کا استعمال کیا جانا چاہئے تا کہ اس مرض سے بچا جا سکے۔
3۔
رات کو باہر سونے سے اجتناب برتنا چاہیے اگر مجبورا سونا پڑ جائے تو مچھر دانی کے
اندر سویا جائے یا سونے کی جگہ کے نزدیک دھواں دینے والی کوئی چیز جلائی جائے تاکہ
مچھر وہاں سے بھاگ جائیں ۔
4۔
حکومت کو اس ضمن میں رات کے وقت گھریلو سیکٹر کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دینا
چاہیے۔ تکہ لوگ باہر چھتوں پر پر سوچنے پر مجبور نہ ہو اور اس مرض سے محفوظ رہ
سکیں۔
5۔ یہ مچھر چونکہ صاف پانی کے ذخائر پر آتا ہے لہذا اس مچھر سے
بچاؤ کے لیے ان جگہوں کا خاتمہ کرنا چاہیے جہاں پانی کھڑا ہو۔ پانی کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے روم
کولر میں جمع شدہ پانی کو نکال کر اسے مکمل طور پر خشک کر لیا جائے اور گھر میں
موجود گملوں اور کیاریوں میں پانی جمع نہ ہونے دیا جائے۔
6۔
پرانے ٹائروں اور کاٹ کباڑ کی اشیاء کو
ٹھکانے لگایا جائے علاوہ ازیں گھر میں میں پپیتے وغیرہ کے درخت صحت کی موجودگی بھی
گھر میں مچھروں کی موجودگی کو روکتی ہے۔
علاج
یہ
تو تھے مچھر سے بچاؤ کے چند طریقے لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر مچھر احتیاط کے
باوجود کاٹنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور خدانخواستہ دینگی کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے
تو اس کا علاج کیسے کیا جائے اور خوراک وغیرہ کیا استعمال کی جائے۔
1۔ ڈینگی بخار سے کیونکہ جس میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے لہذا ڈینگی
کے مریض کو لیکوٰیڈ زیادہ سے زیادہ دینی
چاہیے ۔ پلیٹ لیٹس کا لیول بڑھانے کے لیے انار کے جوس میں لیموں کا رس ملا کر دینا
چاہیے ۔
2۔
علاوہ ازیں پپیتے کے پتے کھانے سے یا ان کا رس نکال کر پینے سے بھی کمزوری میں
خاطرخواہ کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کا مکمل
علاج اب تک منظر عام پر نہیں آیا مگر بیماری کو زیادہ شدید ہونے سے بچانے کے لیے
مریض کو مختلف قسم کے جوسز دینی چاہیے تاکہ اس کے جسم میں پانی کی کمی واقع نہ ہو۔
3۔ مریض کا درجہ حرارت زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے، کیونکہ اس سے
ہارمونز کے فنکشن متاثر ہوتے ہیں۔ بخار
اتارنے کے لئے گیلے پانی کی پٹیاں استعمال کرنی چاہیے۔ پیراسیٹامول کا استعمال کیا جا سکتا ہے مگر دن
میں چار مرتبہ سے زیادہ نہیں ۔ ڈینگی کے
مریض کو اسپرین اور بروفن دینے سے گریز کرنا چاہیے اور سب سے بڑھ کر ہر مرض چونکہ
اللہ تعالی کی طرف سے آتا ہے تو اس کا علاج بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔
اور اگر تجھے اللہ کی طرف سے تکلیف پہنچے تو اسے کوئی نہیں دور کر سکتا سوائے اللہ کے
لہذا
ڈینگی سے نجات کے لئے اللہ تعالی سے دعا گو ہونا چاہیے۔ مریضوں کی عیادت کرنی
چاہیے۔ اور اس مرض کے خلاف حکومتی اقدامات
میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ عوام میں شعور پیدا کرنا چاہیے کہ اس مرض پر صرف
حکومت قابو نہیں پا سکتی بلکہ ہر شخص کو اس سے بچاؤ کے اقدامات کرنے چاہئیں۔