www.iqranotes.com
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
انسان اشرف المخلوقات ضرور ہے اور دنیا کی ہر ایک شے کو قابو میں کرکے اسے خاطرخواہ انداز پر ڈھال لیتا ہے لیکن ماحول کے اثر سے خود بھی آہستہ آہستہ بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود، عادات اور احساسات میں بڑی لچک ہے اور اسی وجہ سے وقت اور ماحول کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے ۔یہ چیز اس کی فطرت میں اس قدر رچی بسی ہوئی ہے کہ بعض حالتوں میں یہ خود کو نہ بدلنا چاہے یا اپنے جذبات و احساسات کی تبدیلی پر تلملاتا بھی رہے تب بھی تبدیلی کاعمل اس پر طاری رہتا ہے۔ مثلا مشینی دور اور صنعتی انقلاب نے انسانیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سماجی ڈھانچے بدل گئے۔ دانشوروں نے ان اثرات کو محسوس کیا۔ چنانچہ اقبال بھی اپنی مشہور نظم’’ لینن خدا کے حضور میں’’ لینن کی زبانی اس صورتحال کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اس شعر کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگرچہ مشینوں کی ایجادات اور استعمال سے انسان نے مادی ترقی بہت زیادہ کر لی ہے مگر سائنسی دور میں خود انسان کو بھی مشین کی طرح بے حس کر دیا ہے۔اس کے دل میں اب وہ سوز، دل گدازی اور محبت نہیں رہی جو مشینی دور سے پہلے تھی۔ غربت، جہالت، بیماری اور بےروزگاری، مادیت پرستی ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جنہوں نے ہم سے احساس مروت چھین لیا ہے مشینوں کا کاروبار یوں بڑھا ہے کہ انسانوں کی قدرومنزلت کم ہو گئی ہے۔
ہم نے مشینی دور سے پہلے کے زمانہ نہیں دیکھا لیکن تاریخی واقعات ہمیں بتاتے ہیں کے پہلے دور میں لوگوں میں خلوص و ایثار کا جذبہ موجود تھا کہ آج اس کا عشر عشیر بھی مشکل سے نظر آتا ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ ایک مسلمان لڑکی اپنے بھائیوں کو مدد کے لیے پکارتی تو مسلمانوں کی راگ حمیت بھڑک اٹھتی اور وہ یلغار کرتے ہوئے دشمن کو پامال کردیتے۔ فتح سندھ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اس کے برعکس اس مشینی دور میں وہ غیرت و حمیت کہاں گئی؟ آج واقعات ہمارے سامنے ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ مشینوں کی ترقی نے انسانیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اخلاقی اقدار مٹتی رہی ہے۔آج نہ بھائی بھائی رہا ہے اور نہ دوست دوست۔
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا برادر ہووے
سائنس والے کہتے ہیں کہ موجودہ دور ترقی انسانیت کا دور ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک دھوکا ہے۔ یہ ایٹم بم اور زہریلی ہتھیار انسانیت کو تباہ کرنے کے لئے ایجاد ہوئے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کو یاد کرکے دل تھرا اٹھتے ہیں۔
ابھی تک آدمی صید زبون شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے
سائنس دان کہتے ہیں کہ انسانی عقل انتہائی بلندیوں پر پہنچ رہی ہے مگر ایک حساس انسان اس کو’ جہل خرد’ کہہ کر پکارتا ہے
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئےانسان بڑھ گئےسائے
آج جب ہم دیہات میں جاتے ہیں جہاں کی معاشرت پر یہ قول اقبال غازہ رنگ تکلف کے داغ نہیں پڑے ہیں اور سائنسی آلات نے لوگوں کا خون سفید نہیں کردیا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ مجموعی طور پر ایک جسم و جاں رکھتے ہیں۔ ان سب کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ کسی ایک آدمی کا دکھ سارے گاؤں والوں کا دکھ بن جاتا ہے۔
اس کے برعکس کسی بڑے مشینی شہر میں جائیں۔ سب سے پہلے کاروں کا دھواں اور پیٹرول کی بدبو دل و دماغ کو پریشان کردے گی۔ ہر قدم پر جان جانے کا ڈر کسی مرگھٹ کے بھوت کی طرح آپ کو لپٹ جائے گا۔ کوئی شناسا مل بھی جائے تو یو نظریں چرائے گا جیسے وہ کبھی آشنا نہ تھا۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر ایک اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ بے نیازی کا یہ عالم کہ برسوں ایک پڑوسی کی دوسرے سے ملاقات نہیں ہوتی۔ باپ اپنی راج آتا ہے بیٹا اپنے سکوٹر کی راہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو کسی سے محبت نہیں ہے۔ وہ صورتیں کہاں نظر آئیں گی جن کے جگر میں سارے جہاں کا درد ہوتا تھا۔
ان حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہمارے دل سے یہ آواز کیوں نہ نکلے۔
خداوندا بتا تیری جہاں کو کس طرح بدلیں
اور اس سے بے چینی، بے مروتی اور بے نیازی کو مشینی دور کی پیداوار کیوں نہ سمجھیں جس میں انسان خود بھی ایک کل کا پرزہ بن کر رہ گیا ہے۔ اقبال نے سچ ہی تو کہا تھا ۔
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت