محبوب رہنما------------- قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ

www.iqranotes.com


محبوب رہنما------------- قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ


محبوب رہنما------------- قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ

جن دنوں سرسیداحمدخان مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوشاں تھے اس زمانے میں کراچی کے ایک گمنام تاجر کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کراچی کے خاموش ساحل اور اداس فضا کا یہ مکین انگلستان روانہ ہو گیا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ نوجوان جو آج اپنا مستقبل سنوارنے انگلستان جا رہا ہے واپس آکر اپنی قوم کا مستقبل سنوارے گا اور سرسید و اقبال کے بعدمسلمانوں کی ڈگمگاتی کشتی کا ناخدا بن جائے گا۔

 نوجوان مسلم وکیل نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلمانوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم کشیدگی کے دور میں اتحاد پر زور دیا۔ جب کانگریس سے اتحاد کے پیامبر کی حیثیت سے ناکام ہو گئی تھی تو اقوام عالم نے دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت  ابھرتی دیکھی جو سب سے بڑی اسلامی حکومت تھی۔

 تحریک خلافت کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں بہت حد تک سیاسی شعور پیدا ہوچکا تھا، مگر ابھی تک وہ مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان کی بیداری سے فائدہ اٹھانے اور ان کو متحد کرنے کے لئے ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت تھی جوان کی نمائندہ ہوں۔

1930ءمیں علامہ اقبال نے مسلم لیگ کی الہ آباد اجلاس میں مسلمانوں کے لئے ایک خاص منزل کا تعین کر دیا تھا اور ایک علیحدہ مملکت کا خاکہ پیش کردیا، مگر اس میں رنگ بھرنے اور اسے حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے کسی خاص شخصیت کی ضرورت تھی اور قدرتی اس عظیم کام کی ذمہ داری اسی پتلے دبلے نوجوان پر ڈال دیں جو ہندو مسلم اتحاد کا نقیب تھا اور اس وقت محمد علی جناح کے نام سے مشہور تھا۔

 آپ نے مسلم لیگ کی ازسرنو تنظیم کی اور ضلعی اور تحصیلی لیگیوں کے ذریعے مسلمانوں میں اس کی اہمیت کا خیال پیدا کرنا شروع کیا۔ مسلمانان ہند میں مسلم لیگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر کانگریس حسد کی آگ میں جلنے لگی۔ کانگریس کے صدر پنڈتجواہرلالنہرو نے کہا ہندوستان میں صرف دو پارٹیاں ہیں،  ایک کانگریس اور دوسری حکومت۔ قائداعظم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہندوستان میں ایک تیسری پارٹی مسلم لیگ ن ہیں جو ہندی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ وہ اپنے قول کو ثابت کرنے کے لئے ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ 1937ء میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس قائداعظم کی      صدارت میں منعقد ہوا۔زن مسلمان رہنماؤں1936ءکے انتخابات  میں مسلم لیگ کے امیدواروں کو شکست دی تھی وہ بھی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

 23 مارچ 1940 کو مسلم لیگ ن لاہور کے  منٹو پارک میں ایک لاکھ فرزندان توحید کی زبردست اجتماع میں قرارداد پاکستان منظور کی۔ ہمارے محبوب قائداعظم نے ایک آزاد اور خود مختار ملک کا مطالبہ پیش کردیا۔ اس قرارداد کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ عوام میں مقبول ہوتی گی۔ مسلمان طلبہ قریہ بہ قریہ مسلم لیگ اور پاکستان کی آواز لے کر پہنچ گئے۔ اس طرح مسلمانوں کی زبان پر مسلم لیگ اور پاکستان کا لفظ جزوایمان بن گیا۔ 1946ءکے انتخابات نے یہ ثابت کر دیا کہ ہندوستانی مسلمان ہندو قلبہ سے آزاد ہونا چاہتے ہیں اور ایک آزاد وطن حاصل کرنے کے کتنے آرزومند ہیں۔ ہندوؤں نے سخت مخالفت کی لیکن قائداعظم کی عزم و استقلال میں کوئی فرق نہ آیا۔ ان کے نحیف جسم میں ایک طوفانی روح چھپی ہوئی تھی اور ان کا عزم کہسار سے زیادہ پایندہ و محکم تھا۔

آخر قائداعظم کی ان تھک کوششوں کے سبب 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت اور پانچواں بڑا ملک پاکستان نمودار ہوا۔ ہمارے بوڑھے قائد کو کام کی زیادتی کی وجہ سے پہلے ہی تھک چکے تھے اب گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندو مسلم فسادات، نقل مکانی اور آبادکاری وغیرہ ایسے مسائل تھے جن کے ہوتے ہوئے پاکستان کی سلامتی خطرے میں تھی۔ قائداعظم نے اس نحیف پودے کی آبیاری اپنے مقدس خون سے کی اور جس عزم، حوصلہ اور بلند ہمتی سے اس قوم کو سنبھالا، اس نے ان کو ہیرو بنا دیا۔ اس خطرناک دور میں قوم نے ان کی ہر اپیل پر لبیک کہا۔ اس طرح قائداعظم ایک مشعل بردار کی حیثیت سےرہنمائی کرتے رہے اور جب بھی کوئی فیصلہ کیا اپنے لوگوں کے دل کی دھڑکنوں اور روح کی آواز کو سامنے رکھا اور پھر اس پر چٹان کی طرح مضبوطی سے ڈٹ گئے۔

 تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ جو اقوام دنیا میں نام پیدا کر گئی ان کو مثالی قیادت حاصل تھی اور جو قومیں آج صفحہ ہستی سے مٹ گئی ،اس کی ساری ذمہ داری نااہل اور خودغرض قیادت پر رہی۔ جس کی قیادت مل گئی جو اپنی قوم کے دل کی دھڑکنوں کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ اس کو عملی قوت بھی دے سکی، وہ قوم زندہ جاوید ہوگئی۔ قدرت آی سی باکمال لوگ صدہا سال بعد پیدا کرتی ہے جن میں بہادری، جرات اور شجاعت موجود ہو، جو گفتار اور کردار کے غازی ہو، جن کی عمل میں قوت ایمانی ہو اور جن کا خلوص لازوال ہو، جن کی آواز پر ساری قوم مرنے مارنے پر تیار رہیں، جن کی پوری زندگی انگشت نمائی سے محفوظ رہے، جن کی شخصیت اتنی پرکشش ہو کہ دشمن بھی سامنے آئے تو زبان سے نکلا ہوا لفظ قوم کی تقدیر بن جائے۔قائداعظم ایسے ہی چند عظیم انسانوں میں سے ایک تھے۔وہ نہ صرف پاک و ہند بلکہ تمام عالم اسلام کی ایک عظیم المرتبت شخصیت تھے- ایسی شخصیت جس نے غلاموں کے جسموں میں آزادی کی روح پھونکی، جس نے ایک مایوس، شکست خوردہ، غلام اور پست ہمت قوم کو اس قابل بنایا کہ وہ ایک انگڑائی لے کر اٹھے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر ایک باعزت آزاد زندگی بسر کر  سکے۔

 انہوں نے مسلمانوں کے خیالات بدلے ،ان کی ذہنیت بدلی اور دماغوں کو ایک نئی روشنی عطا کی۔ انہوں نے اپنی قابلیت، سیاست اور بے پناہ خلوص سے برصغیر پاک و ہند کی سیاست کا رخ پلٹ کر رکھ دیا۔ انہوں نے عزم و استقلال، ہمت و جوانمردی، قربانی اور ایثار سے بساط عالم پر ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی جس کا کسی کو وہم و گمان تک نہ تھا۔ قائداعظم کو انہی خوبیوں کی وجہ سے وہ ہردلعزیزی نصیب ہوئیجس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ قائداعظم نے اپنی بلند ہمتی اور مسلسل جدوجہد سے نہ صرف مسلمانوں کو ایک حکومت، سلطنت، فوج، مال ودولت اور خطہ زمین لے کر دیا بلکہ ایک غیر متزلزل عزم، اٹل ارادہ اور ناقابل تسخیر ہمت دی جسکی بل بوتے پر برصغیر کے مسلمان آج ایک آزاد اور خودمختار قوم ہیں اور اقوام عالم میں عزت و منزلت کی نظر سے  دیکھے جاتے ہیں۔

 اسلامیان پاک وہند کا یہ رہبر فرزانہ،ارض مشرق کا عظیم المرتبتانسان، دس کروڑ مسلمانوں کی تقدیر بدلنے والا مرد مومن 11 ستمبر 1948 کو ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا، لیکن ان کا نقش قدم اب بھی ہمیں عمل پیہم کی دعوت دے رہا ہے کہ ہم ان کے سنہری الفاظ'' اتحاد، تنظیم، ایمان'' کو ذہن میں رکھیں اور ان کی متعین کردہ راہوں پر چل کر پاکستان کو عظیم تر مملکت بنا   دیں ۔

قائداعظم علامہ اقبال کے اس شعر کی ہو بہو تصویر۔

  نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
 یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

*

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post