تمباکونوشی کے نقصانات


تمباکونوشی کے نقصانات


تمباکونوشی کے نقصانات 

تمباکونوشی آج کل ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ ایک ایسی عادت ہے جس میں بچے، بوڑھے، مرد اور عورتیں سب مبتلا ہیں بعض لوگ شروع میں فیشن کے طور پر تمباکو نوشی کرتے ہیں اور بعد میں ان کی عادت بن جاتی ہے۔ اسی طرح کے بچے، بڑوں کی دیکھا دیکھی اس لت میں پڑ جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کی صحت کا ستیاناس ہو جاتا ہے ۔ دنیا کے تمام ڈاکٹر اور حکیم اس بات پر متفق ہیں کہ یہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ کچھ عرصہ قبل تمباکو نوشی ، حقہ کے ذریعہ کی جاتی تھی پھر سگار اور سگریٹ تیار ہوئی ۔ موجودہ دور میں سگریٹ نوشی زیادہ تر مقبول ہے اور اکثر لوگ اس کے اسیر ہیں ۔ سگریٹ نوشی کی وبا پھلنے کی ایک اہم وجہ ہمارے ذرائع ابلاغ بھی ہیں ۔ ٹیلی ویژن ، ریڈیو، اخبارات میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے، جس سے لوگ متاثر ہوکر تمباکو نوشی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں بعض لوگ تھکاوٹ اور اعصابی تناؤ دور کرنے کے لیے سگریٹ نوشی کرتے ہیں، جس سے وقتی طور پران کی طبیعت میں کچھ سکون کی 
کیفیت پیدا ہو جاتی ہے لیکن یہی عادت آخر کار ان کے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔ 
تمباکو کی دریافت سب پہلے امریکا میں ہوئی اور وہاں سے ہی دوسرے ممالک میں پہنچا تمباکونوشی چاہے 
سگریٹ کے ذریعے ہو یا حقے کے ذریعے بہر حال نقصان دہ ہوتی ہے اور طبی اعتبار سے اس کے کئی نقصانات ہیں ۔ سب سے پہلا نقصان تو یہ ہے کہ اس میں فضول خرچی ہے۔ قرآن پاک میں الله تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔
 “(بے شک الله تعالی اسراف (فضول خرچی کرنے والوں کو پسندنہیں کرتا ‘‘۔

مہنگائی کے باوجود ایک غریب آدی سگریٹ نوشی ترک نہیں کرتا ، روزانہ ساٹھ کروڑ روپے کے سکریٹ خرید کر پھونک دیے جاتے ہیں ۔ ہر سال اربوں کھربوں روپے تمباکو نوشی پر ضائع ہوتے ہیں اگر یہی رقم ملک میں تعمیری کاموں پر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے تو ملک میں معاشی بہتری آسکتی ہے۔ اس کے علا وہ تمباکونوشی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سگریٹ کی ہر ڈبیا پر لکھا ہوتا ہے کہخبردار تمباکونوشی صحت کے لیے مضر ہےدنیا بھر کے ڈاکٹر تسلیم کرتے ہیں کہ سگریٹ کے زہریلے اجز اور کو ٹین سے خون کی رگیں سکڑ جاتی ہیں ۔ دماغ کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور مزاج میں چڑ چڑاپن پیدا ہوتا ہے، بھوک ختم ہو جاتی ہے، چہرے کی رنگت زرد اور سیاہ پڑ جاتی ہے، معد ہ بری طرح متاثر ہوتا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ لوگ پھر بھی پیسے خرچ کر کے بیماری خرید لیتے ہیں ۔

امام غزالی نے لکھا ہے کہ حشیش اور تمباکو سے سترمختلف بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور آج کی جد يد تحقیق اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ تمباکونوشی ایک میٹھا زہر ہے جو انسان کو اندر سے آہستہ آہستہ کھوکھلا کر دیتی ہے ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے پیاری خریدتے ہیں تمباکو نوشی کرنے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی اس بری عادت کی وجہ سے بہت جلد عارضہ قلب، بلڈ پریشرحتی کہ کینسر جیسی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ کاربن مونو آکسائیڈ ایک زہریلی گیس ہے جو تمباکو جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک سگریٹ نوش جب سگریٹ کا کش لیتا ہے تو زہریلا دھواں اس کے اندر جاتا ہے۔ یہ زہریلا دھواں اس کے اندرونی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ دھوئیں کی وجہ سے دل کی رگوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے ۔ خاص طور پر تمباکو میں پائی جانے والی کلوٹین ایک مہلک زہر ہے۔ سگریٹ کے کش لگانے سے بیز ہر انسان کے اندر چلا جاتا ہے۔ چوںکہ فوری طور پر اس کا اثر ظاہرنہیں ہوتا لہذا ایک سگریٹ نوش بے فکر ہو کر پیتا رہتا ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کو بھوک کی کمی، بے خوابی کی شکایات شروع ہو جاتی ہیں جو بعد میں کسی بڑے مرض کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں اور بالآخر تمباکونوشی کرنے والا ، دمہ، دل کی تکالیف اور قلت خون کا شکار ہو کر موت کے منہ چلا جاتا ہے۔ یہ بات تو تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ سرطان کی بيماری کا موجب تمباکونوشی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بیماریوں کی ایک فہرست ہے جو صرف تمباکونوشی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں مثلا کھانسی ،سردرد لرزہ ، مرگی ، اعصاب کی کمزوری ضعف حافظه ، ٹی بی ضعف دل، دمہ اور نسیان 
وغیرہ۔

تمباکونوشی اختیار کر نے والا جب عادی بن جاتا ہے تو اس کے لیے اس کا استعمال چھوڑنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ پینے والا کھانسی میں مبتلا ہونے کے باوجودسگریٹ کے کش لگانانہیں چھوڑتا۔ اس کے برعکس جولوگ تمباکو نوشی سے دور رہتے ہیں وہ عموما خوش مزاج ، صحت مند ہوتے ہیں ۔ سگریٹ کے مسلسل بے تحاشہ استعمال سے انسان زندہ درگور ہو جاتا ہے۔ جب تک سگریٹ نہ پيۓ اسے چین ہی نہیں آتا۔ اس کی خوداعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔ تمباکونوشی کرنے والا اعصابی دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن اور جلد بازی پیدا ہو جاتی ہے ۔ بعض اوقات ایک طالب علم برے دوستوں کی صحبت میں پھنس کر سگریٹ نوشی اختیار کر لیتا ہے جو اس کے جسم کو آہستہ آہستہ گھن کی طرح چاٹ لیتی ہے اس کے علاوہ تعلیمی اخراجات کے لیے گھر سے ملنے والی رقم کو سگریٹ نوشی میں خرچ کر دیتا ہے۔ اپنی اس عادت کو پورا کرنے کے لیے کہیں نہ کہیں سے ادھار لینا پڑ جاتا ہے یعنی اپنے نشے کو پورا کرنے کے لیے پیسے نہ ہونے کی صورت میں دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے جو ایک گھٹیا حرکت ہے۔ تمباکونوشی بذات خود ایک قبیح فعل ہونے کے علاوہ دیگر منشیات کے استعمال کے لیے پہلا زینہ ثابت ہوئی ہے۔ ایک امریکی ماہر کی رائے کے مطابق جو پچہ کم عمری میں سگریٹ پیتے ہیں، وہ آسانی سے افیون اور ہیروئن وغیرہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو تمباکو نوشی اور دیگر منشیات وغیرہ کے استعال سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے میں بھر پور مہم چلانا ہوگی۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ مسجدوں کے منبر محراب سے آواز بلند کرنا ہوگی، ہر گھر کے بالغ افرادکو چاہیے کہ وہ تمباکونوشی ترک کر دیں کیوں کہ اسی کی تقلید سے معصوم نسل بھی گمراہ ہوتی ہے۔ تمباکونوشی اور خاص طور پر سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کے لیے ہر طرح کے اقدامات کرنے چاہیں تمباکو کی صنعت سے ہونے والی آمدنی کے لیے متبادل ذرائع تلاش کیے جائیں ۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے لاۂحہ عمل طے کر کے اور ذرائع ابلاغ میں سگریٹ کی اشتہار بازی پر پابندی عائد کرے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تمباکونوشی کی مخالفت تو سبھی کرتے ہیں مگر اس کا سد باب کرنے میں کوئی بھی مخلص نہیں ہے۔ سگریٹ قانونا جائز ہے اور دھڑلے سے فروخت بھی ہورہی ہے لیکن اخلاقیات اور قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے سگریٹ کی ہر ڈبہ پر اس کے مضر اثرات کا اعلان بھی ساتھ ہی چھاپا جاتا ہے۔ شرعا تمباکونوشی مکروہ ہے اور فقہ کا مسئلہ ہے کہ حقے یا سگریٹ کا کش لگا کر بغیر منہ صاف کیے انسان مسجد نہ جائے کیوںکہ اس سے دوسرے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے اور مسجد کے آداب کے بھی خلاف ہے۔

آج کل سگریٹ نوشی کو ہمارے معاشرے میں ذہنی طور پر قبول کر لیا گیا ہے مگر ضرورت اس کی ہے کہ لوگوں کو اس کے نقصانات سے آگاہی فراہم کی جائے ۔ پبلک مقامات مثلا ریلوے اسٹیشن ، بس اسٹاپ وغیرہ پر اس کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے ۔ اس طرح ٹی وی، ریڈیو اور دیگر اخبارات میں سگریٹ کے اشتہارات پر قانونی پابندی عائد کی جائے ۔ بے روزگاری بھی نشے کے استعمال کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان روز گار نہ ملنے کی وجہ سے فارغ پھرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ کچھ نوجوان تو اپنے اہل خانہ کے لیے سہارا نہ بن سکنے کی وجہ سے بہت بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں اور بری صحبت میں پھنس کر پہلے سگریٹ نوشی کو اختیار کرتے ہیں بعد میں نشے کے عادی بن جاتے ہیں ۔ اس جان لیواروگ سے بچنے کے لیے والدین اور اساتذہ کو بھی اپنا کردار ادا کر نا چا ہیے ۔ بچوں کو تمباکونوشی کے نقصانات سے آگاہ کریں ۔ لوگوں میں يہ فکرپیدا کی جائے کہ وہ اپنی قوت آرادی کو برو ئے کار لاتے ہو ئے سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں اور چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ نئی نسل کے دل و دماغ میں تمباکونوشی کی نفرت پیدا کی جائے حکومت سگر یٹ کمپنیوں کے ساتھ مل کر انھیں متبادل کاروبار کی سہولتیں مہیا کریں تا کہ تمباکو نوشی کی وبا سے ہماری نوجوان نسل محفوظ رہ سکے اور تمباکونوشی پر خرچ ہونے والا روپیہ ملک میں اصلاحی وتعمیری کاموں پر خرچ ہوتا کہ ملک خوشحالی اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہو۔

*

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post