www.iqranotes.com
Related Topics:
تعلیم
نسواں
آج یہ کہنا کسی ثبوت کا محتاج نہیں کی
بغیر علم کے کسی قسم کی ترقی ممکن نہیں ہیں۔ دنیا کے جن ممالک میں خواندگی کا
تناسب زیادہ ہے وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔جن ملکوں کا خواندگی
کا تناسب کم ہے وہ دوسروں کے مقابلے میں پسماندہ سمجھے جاتے ہیں۔ خواندگی کے تناسب
میں نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی شامل سمجھی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں مردوں کے
مقابلے میں عورتیں کم تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ اس کی کئی ایک وجوہ ہیں۔ ایک وجہ تو اس
کی یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے ملک میں بعض لوگ اس زمانے میں میں بھی عورتوں کو اعلی
تعلیم دلانے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت کو صرف گھر کے لیے پیدا کیا گیا
ہے اور گھریلو تعلیم کے لئے ابتدائی قسم کی چیزیں ضروری ہیں ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ
ابھی عورتوں کے لئے تعلیمی سہولتیں عام نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے کی محدود وسائل کے
لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عورتوں کو کسی قسم کی
کی تعلیم دینا مضرخیال کیا جائے۔
یہ
حقیقت ہے کہ محدود وسائل کے باوجود ہمارے تے ملک میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو
بھی زیور علم سے آراستہ کرنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ چناچہ لڑکوں کے
مقابلے میں لڑکیاں خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، ہر قسم کی تعلیم حاصل
کرتی ہیں۔ تعلیم نسواں ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر حقیقت پسندانہ نہ طرز عمل کی ضرورت
ہے۔ عورت کے بغیر انسانی زندگی کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو
پہیے ہیں۔ اگر دونوں میں سے ایک پہیہ ناکارہ ہو تو گاڑی منزل مقصود پر نہیں پہنچ
سکتی۔ ان دونوں کے اشتراک سے ایسا ہونا ممکن ہے ۔ اگر عورت اپنے دائرہ عمل میں رہ کر علم حاصل
کرے تو اسکی خاطر خواہ نتائج نکل سکتے ہیں۔ ایک باشعور عورت ایک گھر کو اور چند
باشعور عورتیں ایک خاندان کو اور بہت سی باشعور عورتیں پورے ملک کی اخلاقی حالت
میں میں انقلابی تبدیلی لا سکتی ہیں۔ آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت در اصل ایک
ایسا فریضہ ہے جس کو عورت ہی بطریق احسن انجام دے سکتی ہے ۔
عورت
کا دائرہ کار مرد سے قطع نظر مختلف ہے. مرد کا علم و ہنر ہر زندگی کی کٹھن منزلوں
کو آسان کرتا ہے اور عورت کا علم و عمل اس کو اس عظیم ذمہ داری کے لئے تیار کرتا
ہے. عورت کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہیں کہ عورت مرد کی طرح دفتروں
میں کام کرے, مشین چلائیں اور بینکوں میں ملازمت کرے اور پھر ایک غیر فطری بنیاد
پر مرد کے مقابلے پرمساوی حقوق کا مطالبہ کرے۔مغربی ملکوں کے بعض دانشوروں نے عورت
کی اس ترقی معکوس کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ عورت کے اس
غیر فطری طریقے پر با علم ہونے سے خاندانی نظام ختم ہو کر رہ گیا ہے، جس سے آئندہ
نسلوں کا مستقبل ل مخدوش ہو گیا ہے۔ اس کا صحیح اور اصل کام مردوں سے تعاون کرنا
اور ان کے بچوں کی تربیت کرنا ہے۔
اوپر
بیان کئے گئے حقائق کی روشنی میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ کون سے علوم ہیں جن کا
حصول عورت کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ سب سے پہلے عورت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ
اپنے ملک اور مذہب کے بارے میں پوری واقفیت بہم پہنچائیں۔ اس کے لیے اسکول کی
تعلیم میں ان تمام باتوں کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ اس تعلیم کے دوران اس کو اپنی ذمہ
داریوں سے پوری طرح واقف ہونے کا موقع دیا جائے تاکہ اگر ان کو زیادہ تعلیم حاصل
کرنے کا موقع کا نہ ملے تواسکول کی تعلیم ہی ان کی رہنما بن سکے۔ اعلی تعلیم کے
لیے نرسنگ اور ڈاکٹری کا پیشہ ان کیلئے بہت مفید ہو سکتا ہے .اس پیشے کے لیے جس
شفقت اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے وہ قدرتی طور پر عورت میں پایا جاتا ہے ۔خاص طور
پر عورتوں کے علاج معالجے کے لیے عورت کی ذات زیادہ بہتر ثابت ہوسکتی ہے ۔اس پیشے
کے لیےعورتوں کی تدریس اور تربیت کے لئے اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ حتی الامکان
عورتیں عورتوں سے تعلق رکھیں اور مرد مردوں سے ۔عورتوں کا دائرہ کار عورتوں تک
محدود ہو اور مردوں کا مردوں تک ،یعنی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عورتیں مردوں کے
ہسپتالوں میں کام کریں اور مرد عورتوں کے ہسپتالوں میں ۔ان دونوں صنفوں کو آزادانہ
میل جول سے دور رکھنا دونوں کے لئے مفید ہے ۔اس پیشے کے بعد تدریس کا پیشہ عورت کی
فطرت سے بہت مناسبت رکھتا ہے ۔اس میں اسکول اور کالج دونوں کی تدریس شامل ہیں۔ اس
مقصد کے لیے بھی عورتوں کی تربیت کے لئے علیحدہ ادارے کی ضرورت ہے ۔ایسا کرنے کا
فائدہ یہ ہوگا کہ وہ قوم کے بچوں کی تربیت کرنے سے پہلے اپنی اندر وہ صفات پیدا
کرے گی جو تمام قوم کے لئے باعث فخر ہوں۔
ہر
قوم اپنی ملکی اور تہذیبی تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر تعلیم نسواں کو فروغ دیتی
ہے۔ہماری ملک میں تعلیمی نسواں کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اپنی ایک
قوم ہونے کا تصور پس پشت ڈال کر دوسروں کی نقالی کو علم کا مقصد قرار دیںاور رفتہ
رفتہ اپنی انفرادیت کو خاک میں ملا دیں۔کسی علم کی ڈگری حاصل کرنے سے عورت کی
تعلیم کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔اگر کوئی علم عورت میں نسوانی کردار کے استحکام کا
باعث نہ بنے تو اس کے لیے فائدہ مند ہونے کی بجائے الٹا نقصان دی ثابت ہوگا۔ علم
کے حصول سے پہلے اس کی نسوانیت کا تحفظ ضروری ہے۔
آج
کل اس موضوع پر سوچنے والے دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو مغربی طرز
پر سوچتے ہیں اور تعلیم نسواں کے لیے بھی وہی طریقے سوچتی ہیں جن پر آج مغرب میں
شامل ہوتا ہے۔ دوسری وہ لوگ ہیں جو علم و فن کے بارے میں مغربی علوم سے فائدہ تو
اٹھانا چاہتے ہیں مگر وہ ان علوم پر اپنی مصروفیت کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔
کسی مقصد کو حاصل کرنے کے راستے میں بہت سی دشواریاں درپیش ہوتی ہیں۔ دوسرے مسائل
کی طرح اس اہم قومی مسئلہ کے لئے بھی اعتدال اور معقولیت کی راہ اختیار کرنی چاہیے
۔
(ایک
پرانی گرائمر سے حاصل کیا گیا یہ مضمون ہے )
Related Topics: