جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

www.iqranotes.com

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
 جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
بنی نوع انسان  کا قوام جن چار عناصر(ہوا,   مٹی ,  آگ,  پانی ) سے تیار ہوا ہے طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے بالکل الٹ اور   بر عکس ہیں. ہوا اور مٹی کا جوڑ نہیں ہو سکتا. پانی آگ کے لیے موت کا پیغام ہے. یہ چاروں چیزیں جس میں جمع ہو جائیں اس کی فتنہ سامانی کا کوئی اندازہ کر سکتا ہے.یہ حضرت انسان ہی ہے جس نے ان چاروں عناصر سے تشکیل پائی. طبیعت انسانی کا اختلاف ظاہر ہے .پھر ہر فرد دوسرے سے مختلف طبیعت اور
 سرشت  و جبلت لے کر آیا ہے۔ارسطو نے کہا ہے کہ انسان مدنی الطبع ہہے یعنی مل جل کر رہنا سہنا اس کی فطرت اور طبیعت میں شامل ہے۔نتیجہ ظاہر ہے کہ انسانیت طبائع کا اختلاف بنی نوع انسان کو نچلا نہیں بیٹھنے دے گا۔یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف روزازل کو فرشتوں نے یہ کہہ کر باری تعالی کے حضور میں عرض کی تھی کی دنیا میں ایسی مخلوق کو خلیفہ بنایا جارہا ہے جو فتنہ و فساد کو دعوت دے گی اور خون خرابہ کا شکار ہوگی۔ 
مختلف الطبائع  افراد کے سماج میں ہم آہنگی و ہم خیالی اور امن و سکون یا تو اخلاق کے ذریعہ پیدا کیا جاسکتا ہے یا قانون اور حکومت و سیاست کی آنکھ اس کا بندوبست کر سکتی ہے۔اختلاف ہی کا دوسرا نام دین ہے۔یا تو انسانوں میں دیانتداری کس قدر ہوں کہ ان کی اخلاقی قدریں اس قدر بلند ہوجائیں کہ نظام عالم انسانی کے اندر امن و سکون رہے۔کوئی بگاڑ پیدا نہ ہوسکے۔لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں۔محبت و مروت کا رشتہ ان میں قائم رہے۔ایثار کی دولت سے ایک دوسرے کے دکھ درد کا مداوا کر سکے یا پھر حکومت کا ڈنڈا وہ کچھ کر آئے گا جس کے لیے اخلاق و دین کی تعلیم کارگر ثابت نہ ہوسکی ہو۔لیکن تاریخ انسانی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بارہا حکومت کے دباؤ نے وقتی اور ہنگامی طور پر تو انسانی معاشرے سے جرائم ختم کر دیے بلکہ صرف ارتکاب جرائم کی شرح کم کردی لیکن یہ دباؤ کبھی بھی مستقل طور پر جرائم کو ختم نہ کر سکا،کیوں کہ قانون و حکومت کے پاس کوئی ہمہ گیر آنکھ ایسی نہیں جس کا اثر و نفوذ انسانوں کے نہانخانہ دل اور درودیوار سے ماوراء گوشہ تنہائی تک رسائی حاصل کر سکے۔چنانچہ جونہی حکومت ،سیاست اور قانون کی گرفت ذرا ڈھیلی ہوئی فطرت انسانی پھر ربڑ کی لچک کے ساتھ پہلے سے زیادہ گمراہی کی طرف مائل ہوئی اور ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے لگی۔ 
اگر غور سے دیکھا جائے تو قانون و سیاست کے مقابلے میں اصل نصب العین کی حیثیت اخلاق کو حاصل ہے۔قانون اخلاق کا پاسبان ہے لیکن اس پاسبان کا وجود اس قدر لابدی ہے کہ اس میں بھی ایک دائم اور غیر منقطع مقصدیت پیدا ہوجاتی ہے۔قانون اخلاق کی فصیل ہے۔اخلاقی سالمیت کے لیے اس فصیل کے بغیر چارہ نہیں۔لیکن فصیل کی پناہ لینے والے جب تک فصیل کی خبر گیری نہ کرتے رہیں گے یہ کمزور پڑھ کر  سکتی ہے۔اخلاق کا فرض ہے کی قانون کی فصیل کی نگہداشت کرے۔جس طرح اخلاق کی بچاؤ کے لیے قانون کی پناہ ناگزیر ہے اسی طرح قانون کی حفاظت کے لیے اخلاق کی کمک ضروری ہے۔ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اس لیے کہ معاشرہ خواہ کتنا ہی کیوں نہ سدھر جائے بعض افراد ایسے ضرور ہوں گے جن کی معاندانہ طبیعت کا علاج حکومت اور سیاست کی غصیلی آنکھ ہی کر سکتی ہے،ورنہ چند ایک معاندین اور سرکش انسانوں کی بگاڑ اور فساد کے نتیجے میں سارے کا سارا معاشرہ فتنہ و فساد کی دہکتی ہوئی آگ کا ایندھن اور اس کا شعلہ بن سکتا ہے۔ 
بہرصورت دین و سیاست لازم و ملزوم ہیں۔دونوں کا ساتھ ضروری ہے۔ایک کے بغیر دوسرے کا وجود مشکل ہے۔تاریخ انسانی کے کسی دور میں انسانی معاشرے پر نگاہ ڈالیں اور اس معاشرے کا تحلیلی جائزہ لیں تو جو بات سب سے ابھری ہوئی نظر آئے گی یہی ہے کہ اگر اس معاشرے میں دین غالب ہے تو دین پر قائم رہنے والے افراد کے سلسلے میں فسادی لوگوں کی رخنہ اندازیوں سے بچاؤ کے لیے قانون کی پناہ لینا پڑی ہے اور اگر کہیں سیاست کے دباؤ اور قانونی گرفت میں معاشرے کی اصلاح سمجھ کر ہر طرف قانون کا جال بچھا دیا گیا ہے اور معاشرے کی گرداگرد سیاست کی ایک جہاں پناہ فصیل کھڑی کردی گئی ہے تو تاریخ کے اس دور کا بغور مطالعہ ہمیں بتائے گا کہ مفسدین اور فتنہ پرداز لوگوں کو ان کی رکھنا اندازیوں سے باز رکھنے کے لیے کہیں نہ کہیں اخلاقیات کا سبق بھی پڑھایا جاتا رہا ہے۔دین کے درس جاری کرکے ان کی طبیعت کے عناد کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔اگر ایسا نہیں ہے تو حکومت اور قانون کا وہ دباؤ بالکل ہنگامی،وقتی اور بالکل محدود ثابت ہوا ہے اور جونہی سیاست کا شکنجہ ذرا ڈھیلا ہوا ہے لوگ بیش از بیش آفتیں ڈھانے میں سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ 
چناچہ ہلاکو اور چنگیز خان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔اقتدار کے نشے میں اور حکومت و سیاست کے زور میں انہوں نے انسانیت کش اور اخلاق سوز سزائیں اپنی رعایا پر روا رکھی ہیں۔لیکن کیا ان کی یہ سیاست اور حکومت کا یہ دباؤ،ان کی قربانیاں اور جبر شعاریاں رعایا کے مریض دل و دماغ کا کوئی دیرپا علاج کرسکی ہیں؟خون کی سقیم ذہن کے لئے کوئی مستقل دوا تجویز کر سکیں ہیں؟ان کی دکھ درد کا کوئی مداوا ڈھونڈ سکیں ہیں؟تاریخ کا ایک ابتدائی طالب علم بھی اس دور کی تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر بتا سکتا ہے کہ ان کی سیاست بڑی ناپائیدار تھی۔ان کا یہ دباؤ اور قہرو جبر ایک ظلم و ستم کی بھیانک صورت تھی،جس کے تلے انسانیت دب کر چیخ و چلا اٹھی۔یہی وجہ ہے کہ آج تک بنی نوع انسان انہیں ظالم اور سفاک قرار دیتے آئے ہیں۔جہاں کہیں ظلم و سفاکی اور انسانی لباس میں درندگی و وحشت کا ذکر ہوتا ہے،گفتگو کی اس نشست میں آغاز انہیں دو ناموں سے ہوتا ہے۔اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ انہوں نے اصول سیاست و حکومت میں سے دین کے عنصر کو بالکل فراموش کر دیا تھا۔حکمرانی اور جہانبانی، جہانگیری اور جہاں داری کے ان اصول و قوانین سے انہوں نے یک قلم آنکھیں بند کر دی تھی جن پر عمل کرکے ایک حاکم رعایا کے دلوں کو ‏موہ سکتا ہے۔ان کے دلوں پر حکومت کر سکتا ہے اور انہیں اپنا پروانہ و شیدابنا سکتا ہے۔ 
ادھر دوسری طرف ہم مرکزی حیات انسانی اور مقصد تخلیق کائنات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد پر لگا ڈالتے ہیں تو ہمیں دین و سیاست کی ایک جیتی جاگتی تصویر نظر آتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاست و حکومت اور خلافت ارضی جس کی داغ بیل آپ نے اسلام کے احکام کے عین مطابق ڈالی اور جس کی آبیاری ایثار کے جذبے سے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے سے،اپنی خواہشات و جذبات،امیدوں اور تمناؤں کے خون اور عرق انفعال و اشک ندامت سے صحابہ کرام نے کی ہے،جو ایثار کے جذبے سے وہ کچھ کر سکتے تھے جس کے صرف تصور سے بھی آج کی دنیا کانپ اٹھتی ہے اور جو آپ نے اللہ کی رضا جوئی اور نیک خوئی میں وہ سب کچھ جو مطلوب خالق کائنات تھا کر گزرنے کے بعد بھی بڑے منفعل اور ندامت پیش رہتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریاست دین و سیاست کی منہ بولتی تصویر تھی۔ 
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جہاں بانی کی مثال آج اسلام اور فرزندان توحید و رسالت کے دشمن یورپ و امریکہ کے لوگ بھی اپنے سامنے رکھتے ہیں۔کفر اپنی زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے کی جہانگیری و جہانداری کے سلسلے میں خلفائے راشدین کی مثال اپنے سامنے رکھنی چاہیے۔ 
اس کی ٹوہ لگانے سے یہی حاصل نکلتا ہے کہ ان مبارک تاریخی ادوار میں لوگوں کی دینداری مسلم تھی۔فضائل اخلاق کے وہ لوگ پتلے تھے۔انکادینی تقوی گلوگیر نہیں تھا بلکہ دلگیر تھا۔وہ نفاق سے کوسوں دور تھے۔قومی اور سیاسی و حکومتی سطح پر قانون کی پشت پناہی دین کر رہا تھا۔انہیں سیاست کی کم اور دین کی زیادہ ضرورت تھی۔ 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کونسی تلوار چلائی؟اپنے کس پر سختی کی؟تاریخ ثابت نہیں کرسکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قہر وجبر سے کام لیا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی کو شکایت نہ ہوئی لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیرو آپ پر جان چھڑکتے تھے کہ اگر انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمندر میں کودنے،دریا میں چھلانگ لگانے اور آگ میں اپنے آپکو جھونک دینے کا صرف اشارہ ہی کرتے تو وہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار تھے۔بلکہ اپنی وفا شعاری کے ثبوت میں اس کا ایک نہیں کئی موقعوں پر وعدہ کر چکے تھے۔ 
اسلام نے حکمرانی کی چند شرائط و اصول بیان کیے ہیں۔قرآن میں ارشاد ہوتا ہے"مسلمان اور اللہ کے فرمانبردار وہ لوگ ہیں کہ جنہیں اگر ہم خلافت ارضی عطا کردیں تو وہ نماز قائم کریں گے،زکوۃ ادا کریں گے،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انتظام و انصرام کریں گے۔ 
دینی حکمرانی اور اسلامی حکومت کے یہ اصول جن سے پہلو تہی اور انحراف،بی اعتنائی اور تغافل چنگیزی سیاست کا پیش خیمہ ہے۔

*

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post