عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

www.iqranotes.com


عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

زندگی اعمال اور افعال کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ یہ ایک غیر منقطع سلسلہ کار ہے۔ انسانی کارکردگی کی ایک مضبوط زنجیر ہے جس کی کڑیاں بہ مضبوطی سے جڑی ہوئی  ہیں۔ رشتہ کار ادھر ذرا ٹوٹا نہیں ادھر رشتہ حیات کاٹ دیا جاتا ہے اور زندگی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

جو لوگ بے کار ہیں، کہیں کسی طور پر سرگرم عمل نہیں وہ انسانی صلاحیتوں کا خون کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے کو موت کے منہ میں لے جا رہے ہیں۔ جسم انسانی کا یہ خاصہ ہے کے اسے سکون، ٹھہراؤ اور جمود و تعطل راس نہیں آتا۔ اس صورت میں اس کا جسم پھول کا طرح طرح کی بیماریوں کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔  انجام کار موت کی آغوش قبل از موت دبوچ لیتی ہے۔

طبعی موت اگر اسے اپنا لقمہ بنانے میں ذرا توقف بھی کرے تو یہ کیا کم موت ہے کہ انسان طرح طرح کے امراض کا شکار اور قدم قدم پر بلکہ زندگی کے ہر سانس کے لئے دوسروں کا دست نگر اور محتاج ہو کر رہ جائے۔ کھلانے پلانے، اٹھانے بٹھانے اور حوائج بشری سے سبکدوشی وغیرہ میں جب تک دوسری اس کی مدد نہ کریں، اپنا دست تعاون اس کی طرف نہ بڑھائیں اس کا اپنے جسم کا ہر عضو شل ہے۔ کس قدر بھیانک منظر ہے جو ایسے آدمی کو دیکھ کر اور نگاہوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ یہ کیا کوئی جہنم سے کم ہے؟ یہ دنیاوی دوزخ ہے جس میں ایسا شخص خود اپنے ساتھ دوسروں کو بھی نا کردہ گناہوں کی پاداش میں جھونک رہا ہے۔ ان کی زندگی اس کی وجہ سے اجیرن ہے، جینا انہیں دوبھر اور محال ہے، موت میں وہ اپنی زندگی سمجھتے ہیں ،زیست پر نیست کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک جسم انسانی کی وجہ سے نہ جانے کتنے نفوس بشری تکلیف میں  ہیں۔ ایسے شخص کی موت میں، خواہ طبعی ہو یا غیر طبعی، بے شمار لوگوں کی راحت ہے۔ ایسے اشخاص کے لئے قضا و قدر نہیں علامہ اقبال کے الفاظ میں ذیل کا نسخہ تجویز کیا ہے ۔

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ  مفاجات

یہ اس شخص کا تذکرہ ہو رہا ہے جس سے انسانیت کو دکھ ہے، جس کا درمان اس کی موت میں ہے، جو انسانیت کے جسم پر کلنک کا ٹیکا ہے ٹیکہ ہے حالانکہ یہی انسان حیات مخلوق کو کائنات کا محور ہے، یہی اشرف المخلوقات ہے جس کے ہاتھ میں تسخیر کائنات ہیں، جس نے سمندروں کو چیر ڈالا، پہاڑوں کو پھاڑ ڈالا، فضا کو اپنی حدوں سے چیر کر چاند پر اپنی ہمت کا کمند ڈالا۔ لیکن خالق کائنات کو خود ایسے انسان سے نفرت ہے جس کا وجود  جسم انسانی پر ایک رستا ہوا ناسور ہے،جس میں سے انسانی صلاحیتیں پیپ کی صورت میں بہ نکلی ہیں۔ اس نے قوت کار کو مفلوج کردیا ہے۔ اس سے فکرونظر کی استعداد سلب کر لی گئی تھی۔ اس کے لیے زندگی میں کوئی دلچسپی اور دلکشی نہیں۔ اسکی زندگی موت ہے اور موت زندگی ہے، اس لیے کہ زندگی اس کے لئے جہنم کدا ہے۔

یہ  جسم انسانی کے   تعطل کی مثال تھی۔ اب اس کی روح کو جوہر عقل و فہم، اس کی قوت فکر و نظر کا ذرا تصور کریں جس نے اپنی روح کو بد عملیوں کی وجہ سے تباہ کر لیا ہے۔ روح پرور اور روح افزا کام نہیں کیے۔ بلکہ اس کی تکلیف کا سامان اکٹھا کیا ہے۔ روح کو آرام کہاں نصیب ہوگا۔ جسم انسانی زمینی چیزوں سے بنا ہے۔ اس کا گوشت پوست ارضی غذا سے تیار ہوا ہے۔ اس کی ابتدا بھی یہی ہے اس لئے اس کا ٹھکانہ بھی یہی زمین ہے۔ اس کی قرارگاہ بھی زمین کے نیچے قبر کی آغوش ہے۔ جسم انسانی آخرکار کیڑوں کی غذا ہے۔ اس کے برعکس انسانی روح اللہ کا امر ہے۔ اس کا ضمیر پاک و صاف جواہر سے اٹھایا گیا ہے۔ یہ آسمانی مخلوق ہے ۔اس کا ملجا و ماویٰ بھی آسمانی دنیا ہے۔ انسانی جسم کی بداعمالیوں کے صدقے روح اگر کثیف ہو گئی ہے، گناہوں کی غلاظت اس  کی پرواز میں ما نع ہے تو انسانی جسم اپنے ساتھ روح کو بھی جہنم سے لذت آشنا کرے گا۔ یہ سب کچھ انسان کی بد اعمالیوں بدنظریوں اور فکر و نظر کے سقم کا نتیجہ ہے۔

بہر طور اگر اعمال اچھے ہیں تو انجام اچھا ہوگا، ورنہ برے اعمال دنیا وآخرت دونوں جگہ برا ٹھکانا مہیا کریں گے۔

دراصل فلسفہ کی زبان میں زندگی تحرک بدنی کا نام ہے جس میں فکرونظر کو بھی بروئے کار لایا جائے۔ حدیث پاک کی زبان میں بھی ذاکر زندہ اور غافل مردہ ہے یعنی جو اللہ کی یاد کرتا ہے، اپنے اوپر کئے گئے احسانات کو شمار کرتا اور اس کے شکریہ میں نیکو کاری کا ثبوت دیتا ہے،اس کی مزید احسانات کا مستحق بننے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلاتا ہے، وہ زندہ ہے۔ اس کے برعکس احسان فراموش، بے وفا جو ڈھٹائی کےساتھ خدائی انعامات سے فائدہ اٹھاتا ہے، لیکن اس کا شکریہ نہیں بجا لاتا وہ مردہ ہے۔ایسے شخص کیلئے خدا تعالی کے ہاں کوئی وعدہ نہیں, جنت کی کوئی نعمت نہیں بلکہ  جہنم ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔

اگر تم میری نعمتوں کا شکریہ ادا کروں گی تو مزید نعمتیں عطا کروں گا تو جان لو یہ بات بالکل یقینی، قطعی اور حتمی ہے کہ میرا عذاب بڑا سخت ہے۔
جمود و تعطل کی زندگی کو کوئی عقلمند انسان بھی زندگی تصور نہیں کرتاچہ جائے کہ زندگی کی بخشایش عطا کرنے والا اس سے زندگی قرار دے۔ جس انسان میں زندگی  کی نمو ہے، جو صرف خیالی پلاؤ پکاتا ہے، جو صرف شیخ چلی کی طرح خیالات کی دنیا میں گم ہے اور اس سے آگے زندگی کے میدان میں ایک قدم نہیں رکھتا وہ آخرت میں حیات انسانی کی تمام مسرتوں اور کیف سامانیوں سے محروم کر دیا جائے گا۔ ایسا شخص اس زندگی میں تعمیر کرتا رہتا ہے اور کچھ نہیں کر پاتا۔

دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ حضور اکرم صلعم نے یہ کیسی پتے کی بتائی کہ جو کچھ یہاں کاشت کرو گے آخرت میں وہی کچھ کاٹو گے۔جس نے یہاں آخرت کی فکر میں کوئی کام نہیں کیا زندگی کی آخری دور میں اسے کچھ فائدہ حاصل نہیں۔

سہولت پسندی، تن آسانی، سستی، کاہلی اور سہل انگاری کا دور اگر پہلے کبھی اس کرہ عرض پر آیا ہے تو وہ ختم ہو گیا ہے ۔یہ عجب زندہ رہنے کی کوشش نہ کی جائے گی زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔ مسلسل کوشش، جدوجہد اور سرگرمی عمل کا نام زندگی ہے۔

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

یہاں زندہ رہنے کے لئے مرنا پڑتا ہے۔

زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ تم فنا کے میدان میں ہو۔ زندگی کے لیے کوشش کرو اور وہ بغیر زندگی کو ہلاکت میں ڈالنے، مشکلات برداشت کرنی اور صبرآزما کوشش کرنے کی حاصل نہ ہوگی۔ ایسی کوشش میں موت کے خطرات پر سے کودنا پڑے گا، لیکن اس کے بعد جس زندگی سے ہم لذت آشنا ہوں گے وہ عین راحت ہے، راحت کا سرچشمہ ہے۔ قرآن نے اسے دارالسلام کہا ہے یعنی سلامتی، امن و امان اور خیر و عافیت کا گھر جہاں کسی کو تکلیف نہ ہو گی۔

بہشت آنجا است کہ آزارے نباشد
کسے راھا کسے کارے نباشد
لیکن اس کے لیے شرط وہی عمل ہے، وہی فہم کوشش ہے، وہی لگاتار جدوجہد اور مسلسل محنت ہے۔ ایسے میں خطرات سے بے پرواہی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرے گی اور پھر یہ مشکلات کے بادل چھٹ جائیں گے اور مطلع حیات پر ہر طرف راحت بخش کامیابی ہو کامگاری کے پیغمبر و  قاصد درخشندہ ستاروں کی صورت میں جلوہ گر ہوں گے۔

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

مشکلات کے ہر طرف جال بچھے ہیں۔ تکالیف کی کانٹی ہر طرف لٹکے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہمیں راحت کے پھول مسلسل محنت سے تلاش کرنے اور چنے ہیں۔ یہ کانٹے اور پھول حقیقت کے رنگ میں ہوں یا مجاز کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو، بہرکیف تن آسانی اور عیش  سامانی زندہ لوگوں کا شیوہ نہیں۔ علامہ اقبال نے بھی خطرات میں کود پڑنے کو زندگی کا نام دیا ہے۔

اگر خواہی حیات اندر خطر زی

انتھک اور پیہم کوشش کرنے سے گوہر مراد مل سکتا ہے, اس کے بغیر مشکل ہے۔ دنیا ناپائیدار کی راحت ہو یا آخرت کی موعود جنت اور اس کی نعمتیں سبھی کوشش کے دامن سے وابستہ ہیں ۔انسان کو شروع ہی سے جہنمی یاجنتی نہیں بنا دیا گیا بلکہ اسے اچھی صورت میں پیدا کرکے میدان عمل میں بھیج دیا گیا ہے۔ اچھا اور برا دونوں راستے سمجھا دیے گئے ہیں۔ اسے فطری ہدایت کے علاوہ وقتا فوقتا انسانی مخلوق میں سے انبیاء کی شکل میں ہدایت اور رہنمائی عطا کی جاتی رہی ہے۔ جنت میں اس کے لیے درخت اور پھلواریاں لگنا شروع ہو جاتی  ہیں۔ مکانات تعمیر ہوتے ہیں۔ آرام وراحت کا دوسرا سامان مہیا ہونے لگتا ہے۔ شکل نورانی بن جاتی ہے۔ سر پر نورانی تاج رکھے جاتے ہیں۔ اعضائے وضو روشنی عمل سے چمکنے لگتے ہیں ورنہ بد عمل کے لئے وہ چٹیل میدان بھی نہیں بلکہ دہکتی ہوئی آگ ہے۔ اسی کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے



Previous Post Next Post