اردو مضمون "اقبال کا مردمومن"
ہر
لحظ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار
میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری
و غفاری و قدوسی
و جبروت
یہ
چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
وہ اقبال جس کے دل میں سارے جہاں کا درد موجزن تھا۔ جس کی آنکھوں میں سیلاب خون متلاطم تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ ثریا کے باسی قعر مذلت میں گر چکے ہیں تو اس کا دل پارہ پارہ اور جگر پاش پاش ہو گیا۔ اقبال کی بانگ درا نے کاروان تن آسان کو مضطرب کر دیا۔ جس سے تن مردہ میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ شمع حیات خون جگر کی آمیزش سے ٹمٹا اٹھی ۔ آپ کی ضرب کلیم سے نوجوانوں کا خون کھول اٹھا۔ ضیعفوں کے نحیف و ناتواں دست و پا میں سکت آ گئی۔ ملت اسلامیہ کی تقدیر بدل گئی۔ بال جبریل میں انہوں نے قوم کے تشنہ مضراب تاروں کو چھیڑا تو وہ سرمدی نغمے ہویدا ہوۓ جس کی مستی سے روح عمل جھوم اٹھی۔ کلیہ مومن میں وہ سطوت نظر آئی کہ شیر کا کھچار احساس محروی سے دب گیا۔
نشان مرد مومن با تو گویم!
چون مرگ آید تبسم برلب اوست
کلام اقبال میں ہمیں جا بجا "مردمومن"
کا ذکر ملتا ہے کہیں اس کی بجاۓ اقبال ” انسان کامل"، "مرد حق"، "مردقلندر"،"
بندہ آفاقی" اور "مرو خدا" کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔
اقبال کے مردمومن کے باپ سے مختلف آراء پائی
جاتی ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال نے یہ تصور نطشے کے تصور فوق البشر سے اخذ
کیا ہے۔ بعض کی آراء میں اقبال نے محی الدین ابن عربی سے متاثر ہو کر "مردمومن" کا تصور اپنایا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ اقبال نے یہ تصور کہاں سے اخذ کیا اور اقبال کے مردمومن کی صفات کیا ہیں ۔
اقبال اس دنیا میں انسان کامل کی تلاش میں ہیں۔ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "اسرار خودی" میں مولانا جلال الدین رومی کے ان اشعار سے مردمومن کی جستجو اور تلاش کرتے ہیں۔
دی شیخ با چراغ
ہمی گشت گرد شهر
کر وام و دو علوم و انساغم آروزست
" کیا دیکھتا ہوں کہ اندھیری رات سے اور ایک درویش سن رسیدہ ہاتھ میں مشعل لیے کو چہ و بازار کی خاک چھانتا پھرتا ہے میں نے کہا حضرت کس چیز کی تلاش ہے؟ فرمانے لگے ان درندوں اور چوپایوں کی بستی میں رہتے رہتے تنگ آ گیا ہوں اب اس وسیع کائنات میں کسی انسان کی تلاش میں نکلا ہوں۔"
اقبال کا مردمومن "فوق البشر" کے برعکس ایمان و یقین کی قوت سے دنیا کو مسخر کرتا ہے۔ مردمومن کی ایمان کی یہ قوت اور یقین کی ناقابل تسخیر طاقت دنیا کے ان انسانوں سے جو شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں ممتاز کرتی ہے۔اقبال کا مردمومن توحید پر کامل ایمان رکھتا ہے۔ مال وزر کی غلامی سے بلند مقام رکھتا ہے۔ تہذیب واخلاق کی بقا کا ضامن ہے۔ وطن پرستی اور تحقیانہ سوچ کی نفی کرتا ہے ۔ اس کی زندگی سر چشمہ دین اسلام ہے۔ اقبال کا مرد مومن کا تصور عین قرآنی تصور مردمومن ہے۔ اقبال کے نزدیک عبد اور عبدہ، سے حضور ﷺ کی ذات مبارکہ، اقبال کے نزدیک انسان خدا کا مطلوب ہے۔ کائنات کی تمام اشیاء تقدیر کی پابند ہیں جبکہ مردمومن تقدیر کانہیں صرف اور صرف احکام الہی کا پابند ہے ۔
تقدیر کے
پابند جمادات و نباتات
مون فقط احکام الہی کا ہے پابند
جب اقبال نے عصری تناظر میں دیکھ لیا زمانہ
اب غیر روحانی ہوتا جا رہا ہے لوگ مادیت کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں کہیں بے
دین سوشلزم کا دور دورہ ہے تو کہیں دہریت کا تسلط ۔ اقبال ان مدفوعات کا حل چاہتے
ہیں ان کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے کسی ایسی شخصیت کا وجود مسعود ہو جو اپنی لازوال
قوتوں کے ذریعے دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دے۔
نرم وم
گفتگو ، گرم
دم جستجو
رزم ہو
یا بزم ہو
پاک دل و
پاک باز
عقل کی
منزل ہے وہ
عشق کا حاصل
ہے وہ
حلقہ آفاق
میں گرمی محفل
ہے وہ
مردمومن
اللہ تعالی کی ذات پر کامل ایمان کی بدولت، عزم واستقلال اور نا قابل شکست جرأت و
ہمت کا حامل ہوتا ہے راہ حق میں بڑی سے بڑی طاقت کے بالمقابل ایک چٹان بن جاتا ہے۔
مرد مومن اخلاق و کردار میں قرآنی صفات کا حامل ہوتا ہے۔
كشجرة
طيبة اصلها ثابت وفرعھا فی السماء
ترجمہ: "اس کی مثال ایسے پاک درخت کی ہے جس کی جڑیں جمی ہوں اور شاخیں آسمان کو چھو رہی ہوں"۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر
آتا ہے حقیقت
میں ہے قرآن
جس سے
جگر لالہ میں
ٹھنڈک ہو وہ
شبنم
دریاؤں کے
دل جس سے
دہل جائیں و ہ
طوفان
ڈاکٹر طاہر فاروقی :"اقبال کا تصور مردمومن" میں لکھتے ہیں۔
" اقبال نے جس مرد مومن کا تصور پیش کیا ہے وہ نائب خدا اور خلیفۃ اللہ سے وہ ہی تخلیق کائنات کا مقصود سے وہ ہی حقیقی انسان کا حل ہے وہ ان تمام اوصاف و کمالات سے متصف سے جو مشیت الہی میں اس کے لیے امانت رکھے گئے ہیں اور جن کی بدولت سے "احسن التقویم" کے معزز لقب سے نوازا گیا ہے۔"
عالم ہے
فقط مومن جانباز
کی میراث
مومن نہیں
جو صاحب لولاک
نہیں ہے
اقبال کا مردمومن جذ بہ وعمل کا درس دیتا ہے۔ اقبال کے نزدیک مرد مومن عمل سے جی نہیں چراتا بلکہ زندگی عمل سے ہی بنتی ہے وہ اپنے عمل سے اسے جنت بنا تا ہے یا جہنم ارتقاء حیات اور بقاۓ حیات ممکن ہے ۔ مردمومن کی زندگی جدوجہد عمل کو اہمیت دیتی ہے۔ مرد خدا کی زندگی عشق وعمل کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔
مرد خدا
کا عمل عشق
سے صاحب فروغ
عشق سے
اصل حیات موت
ہے اس پر
حرام
انسان
کامل گفتار و کردار میں ایک ہوتا ہے ۔ رہبانیت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ کم
آمیزی اور دلاویزی کی صفات سے مالا مال ہوتا ہے۔
کہتے ہیں
فرشتے کہ دلاویز
ہے مومن
حوروں کی
شکایت ہے کہ
کم آمیز ہے
مومن
انسان کامل یا مردمون میں دو قسم کی صفات کا
حسین امتزاج موجود ہوتا ہے جس میں ایک "جلالی" اور دوسری
"جمالی" ہے بندہ مومن متضاد صفات کو اپنی زندگی میں جمع کرنے والا ہے۔
اس کی ذات میں درویشی اور سلطانی و کلاوراری فقر و غفوری ، جلال و جمال، دلبری اور
قاہری کی صفات جمع ہونگی۔
مٹایا قیصر
و کسری کے
استبداد کو جس
نے
وہ کیا تھا زور حیدر ، فقر بوزر ، صدق سلمانی
خودی کی بیداری مومن کو ایسا انسان بنا دیتی ہے جس کا ہر عمل اور ہر
فعل خدا تعالی کے لیے ہوتا ہے ایسا کرنے سے وہ صحیح معنوں میں نائب خدا خلیفہ اللہ
بن جاتا ہے۔اس کی زندگی اللہ تعالی کے دیئے ہوئے ضابطہ حیات کے مطابق بسر ہوتی ہے
وہ ایک سچا مسلمان بن جاتا ہے ۔ اس کی منشا رضاۓ الہی اور حب مصطفی ﷺ
کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتی ۔ وہ اللہ تعالی کی حدود قیود سے انحراف نہیں کرتا۔
اور سیرت نبی اکرم ﷺ
وسلم کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔
بمصطفے برساں
خویش را که
دین ہمہ اوست
گر به
او نه رسیدی
تمام بولہی است
اقبال کا مردمومن وہ بندہ آزاد ہے جس کی آزادی رضائے الہی سے متصادم نہیں ہوتی ، ایمان و اخلاص وعمل اس کا وضو، وفا شعاری اس کی نماز اور عشق اس کا امام ہوتا ہے ۔ وہ خیر کا علمبر دار بن کر شر کی بیخ کنی کرتا ہے۔
کافر کی
یہ پہچان کہ
آفاق میں گم
ہے
مومن کی
یہ پہچان کہ
گم اس میں
ہیں آفاق
مردمومن کا دل عشق مصطفی ﷺ
سے سرشار ہوتا ہے۔ گویا مردمومن وہ ہے جو اسوۂ حسنہ پر مکمل طور پرعمل پیرا ہو۔
نبی پاک ﷺ کی
اتباع سے مرد مومن رضائے الہی کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ اس طرح اس کا تعلق اللہ
تعالی سے پختہ ہو جاتا ہے اس کی رضا خدا کی رضا بن جاتی ہے۔ مرد مومن وہ مقام پاتا
ہے جہاں خدا کے جلوے اس کے کردار وعمل سے ظاہر ہوتے ہیں وہ خود کو عشق الہی میں
اتنا گم کر دیتا ہے کہ وہ قدرت کاملہ سے آشنا ہو جاتا ہے۔
کی محمد
ﷺ سے
وفا تو نے
تو ہم تیرے
ہیں
یہ جہاں
چیز ہے کیا
لوح و قلم
تیرے ہیں
ہاتھ ہے
اللہ کا بندہ
مومن کا ہاتھ
غالب و
کار آفرین کار
کشا کار ساز
اقبال
کا مرد مومن محکم اور تکمیل یافہ خودی کا مالک ہوتا ہے خودی کی تکمیل میں عشق اہم
محرک ہے عشق بڑی وسعت کا حامل ہے ۔ عشق خدا کا رسول ﷺ
اور عشق خدا کا کلام، اللہ تعالی کے احکام پرعمل عشق سے ہوتا ہے. اللہ تعالی کی
رضا عشق الہی سے حاصل ہوتی ہے اور رضائے الہی ، اتباع رسول ﷺ
سے حاصل ہوتی ہے جبکہ اتباع رسول ﷺ
عشق مصطفی ﷺ
سے ممکن ہے ۔ مومن عشق کو وسیلہ بنا تا ہے اور خودی کی تکمیل کرتا ہے ۔ یہ خودی ہی
اسے اپنے اصلی مقصد حیات خلیفۃ الارض کے اصلی مقام و منصب سے آشنا کرتی ہے۔
اے دنیا
کی عشاء ہو
جس سے اشراق
مومن کی
آذان نداۓ آفاق
اقبال اگر چہ مسلمانوں کی موجودہ حالت پر پریشان ہے لیکن وہ امید کا پیامبر ہے وہ مایوس نہیں ہے۔ مغربی تہذیب اپنا کردار ادا کر کے اپنا سحر خود ہی توڑ رہی ہے اب اس میں دم باقی نہیں ہے۔ اب اقبال کو ایک جہان تو پیدا ہوتا نظر آتا ہے۔ جس کی امامت کا اہل صرف" مردمومن" ہی ہے۔ اقبال کو یقین ہے کہ پہلے کی طرح مردہ انسانیت کو زندہ کرنے والی آذان ہی سے یہ اندھیرا چھٹ جاۓ گا اور روشن سحر نمودار ہوگی ۔ بیشک آذان مردمومن ہی سے وہ سحر آشکار ہوگی جو انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر یگی۔
یہ سحر
جو کبھی فردا
ہے کبھی امروز
نہیں معلوم
کہ ہوتی ہے
کہاں سے پیدا
وہ سحر
جس سے لرزتا
ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی آذاں سے پیدا