ہوائی جہاز کی آپ بیتی



ہوائی جہاز کی آپ بیتی

میں بوئنگ777 ہوں آجکل ناکارہ ہو کر یونیورسٹی گراؤنڈ کی زینت بنا ہوں اگرچہ پرواز کے کام نہیں آتا مگر لوگ خصوصا چھوٹے بچے مجھے چھو لینے اور دیکھنے کی حسرت رکھتے ہیں۔ان کی خواہش کو پورا کرتا ہوں وہ آتے ہیں مجھے اوپر نیچے سے دیکھتے ہیں اور اندر آکر سیٹوں پر بیٹھتے ہی کمرے میں گھومتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہ کاک پٹ میں گھس آتے ہیں ۔میرے کل پرزے دیکھتے ہیں ایک ایک پرزے کا علم حاصل کر لینا چاہتے ہیں اور میری کہانی سننے کی خواہاں ہوتے ہیں خوب سوال جواب کرتے ہیں میں خوش ہوتا ہوں میرے ملک کے بچے بڑے ذہین ہیں۔یہ ذہین بچے مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں اور میری زندگی کی کہانی سے ان کی دلچسپی اتنی زیادہ ہے۔

ہاں تو بچو! آپ تو جانتے ہیں کہ انسان بہت قدیم زمانے سے ہی اڑنے کی تمنا رکھتا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ خوبصورت نیلے آسمان میں پرواز کرے عقابوں سے بھی زیادہ بلندی پر جائے اور بادلوں سے آگے گزر جائے اس کی خواہش تھی اور اب بھی ہے کہ وہ روشن چاند اور چمک دار ستاروں تک جا پہنچے انسان نے اپنی اس آرزو کو پا لینے کی بہت کوششیں کی ہیں سالہا سال کی تنگ و دو کے بعد وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنا سکا یہی پہلا جہاز میرا جدامجد تھا ۔

بچو! آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ کوئی گیارہ سو سال پہلے ایک مسلمان سائنسدان عباس بن فرناس نے آسمان میں پرواز کرنے کے لئے پر بنائے اور اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہوا کہ ان پروں سے اڑنے لگا۔کچھ دیر بعد بحفاظت زمین پر اتر بھی آیا۔

پھر آج سے کئی سال پہلے ایک جرمن نوجوان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اور اس نے کئی سال محنت کر کے عباس سے بھی بڑے بڑے پر بنائے۔ان پروں کی مدد سے جب پہلی پرواز کی تو خوشی سے پھولے نہ سمایا۔اس کا نام اتو تھا۔اس نے سینکڑوں مرتبہ  بہت بہتر اور زیادہ مضبوط پروں سے فضا میں پرواز کی یہ میرے اجداد کی دوسری نسل تھی۔


اس کے بعد ہوا میں اڑنے کی ایک کوشش مونٹ گرافر نے بھی کی اس نے چمڑے کا ایک غبارہ بنایا اور زمین پر رکھ کر اس کے قریب گھاس اکٹھی کر کے آگ لگا دی جب غبارہ دھوئیں سے بھر گیا اور اسے ہوا لگی تو وہ اڑنے لگا۔آپ سب جانتے ہیں کہ ٹھنڈی ہوا سے گرم ہوا زیادہ ہلکی ہوتی ہے اس لیے گرم ہوا سے بھرا ہوا غبارہ ٹھنڈی ہوا پر بہت دیر تک اس طرح تیرتا رہا جیسے پانی پر کاک تیرتا ہے۔آخر میں ڈیڑھ میل کی اونچائی پر جا کر یہ طیارہ نیچے اتر آیا۔

دیکھا بچو! یہ انسان کی تیسری کوشش تھی۔یہ بات بہت مشکل تھی کہ گرم ہوا کے غبارے میں دیر تک بھری رہ سکتی اس لیے اب اس طیارے میں یہ تبدیلی کی گئی غبارے کے منہ پر ایک چھوٹی سی انگیٹھی باندھ کر اسے اڑایا گیا بالکل ایسے ہی جیسے کوئلے کے انجن میں کوئلہ بھٹی میں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ڈال کر گاڑی کھینچی جاتی تھی ۔غبارے کی انگیٹھی میں آگ کو مستقل جلانے کا انتظام کیا گیا یہ طیارہ ایسے ہی تھا جیسے بچو! تم آج کل بھی شادی بیاہ کے موقع پر دیکھتے ہو کہ غبارے بنا کر ان میں کپڑا باندھ کر آگ لگا دیتے ہیں اور پھر اسے ہوا میں چھوڑ دیتے ہیں جب تک کپڑا جلتا رہتا ہے وہ غبارہ اڑتا رہتا ہے۔

مگر بچو! یہ بھی زیادہ دور فضا میں نہ جا سکا بس آپ کے اجداد غوروفکر کرتے رہے۔آخر کار انہیں ایک ایسی گیس مل گئی جو ہوا سے چودہ حصے ہلکی ہوتی ہے۔یہ ہائیڈروجن گیس تھی بس اب ہائیڈروجن گیس سے غبارہ اڑایا جانے لگا مگر یہ کیا یہ بھی تو انسانی کنٹرول میں نہ تھا۔اسی ہوا اپنی دوش پر اڑائے پھرتی۔پس اس کو مارنے کے لیے چپو استعمال کیے گئے ہاں بالکل کشتی کی طرح کے چپو۔اس کی بڑی خرابی یہ تھی کہ ہائیڈروجن گیس بارے میں ہوتی تھی اور اس میں آگ لگنے کا ہر لمحہ دھڑکا رہتا تھا اس خطرے کی وجہ سے اسے بھی نظر انداز کرکے ایک اور کوشش کی گئی۔

اب کے بار جر من کے ایک شخص کونٹ زیپلن نے بیڑا اٹھایا اور ساری زندگی اس غبارے کو مکمل کرنے میں صرف کردی اس نے ایلومینیم کا ایک چپٹا اور لمبا ڈھانچہ تیار کرکے اسے چند کمروں میں تقسیم کردیا یا ہر کمرے میں علیحدہ علیحدہ گیس کے تھیلے رکھے گئے پھر تمام ڈھانچے کو روغنی ریشم سے ڈھانپ دیا۔ بیٹھنے کی جگہ غبارے کے نیچے رکھی گئی۔ طیارے کا یہ ڈھانچہ اب تک کہ بنائے گئے تمام ڈھانچوں سے زیادہ بہتر تھا۔یعنی میرے اجداد کی ہر نسل ترقی کی  راہ پر گامزن تھی۔

پھر امریکہ والوں نے ایسی گیس کا پتا چلایا جو ہلکی بھی ہوتی ہے اور اس میں آگ لگنے کا خطرہ بھی نہیں رہتا۔ اس گیس اِس کو ہیلیم گیس کہتے ہیں۔مگر یہ گیس اتنی قیمتی تھی کہ اسے استعمال نہ کیا جا سکا۔ اس دوران کئی دوسرے لوگ کوشش کرتے رہے ان میں لینگلی نامی شخص نے ہوائی جہاز میں انجن لگا کر اسے اڑانے کی کوشش کی مگر اس کی موت نے اس کی یہ آرزو پوری نہ ہونے دی ۔لینگلی کے ادھورے کام کو امریکہ کے رائٹ برادران نے پورا کیا۔


ویلبر رائٹ امریکی نوجوان بڑا عقل مند اور ذہین نوجوان تھا۔ ایک دن کھیلتے ہوئے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی اور اسے چند سال تک گھر پر رہنا پڑا اس نے یہ وقت ضائع کرنے کی بجائے مطالعہ گذارہ اور اتو کی زندگی اور اس کے اڑنے کے تجربات پڑے یہ کتابیں پڑھنے کے بعد اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ اس کام کو آگے بڑھائے گا اس کام میں اس کی مدد  اسکے بھائی اوریل نے بھی کی۔

ان دو امریکی بھائیوں نے پہلے تو پر بنائے اور ان کے ساتھ پرواز کی پھر انجن کے ساتھ پرواز کرنے پر غور و فکر کیا تین سال کے عرصہ کے بعد کہیں ان کی آرزو پوری ہوئی اور پہلا ہوائی جہاز تیار ہوا جہاز کی تیاری کے بعد انہوں نے اپنے دوستوں کو دعوت دی تاکہ وہ ان کی پہلی پرواز کا نظارہ دیکھیں تمام دوست بڑے ذوق شوق سے جمع ہوئے ۔آخر کار جہاز زمین سے بلند ہوا سب کے دل خوشی اور جوش سے دھڑکنے لگا یہ پرواز 38 منٹ تک جاری رہی اس کے بعد جہاز بخریت زمین پر پلٹ آیا۔ ویلبر فخر سے جہاز سے باہر آیا سب نے داد دی۔

پھر 17 دسمبر 1903 کو انہوں نے 59 سیکنڈ میں تین سو گز کی پرواز کی۔ دو سال بعد 38 منٹ 3 سیکنڈ میں 55 میٹر کا فاصلہ طے کیا لوگ حیران رہ گئے کسی کو کیا معلوم تھا کہ آگے چل کر یہ پرواز کس قدر تیز ہوجائے گی۔

اب ہوائی جہاز مکمل تھا راہیٹ برادران نے جہازوں کا کارخانہ بنایا اور ہوائی جہاز کی رفتار بڑھانے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں. ایسے سے کل پرزے لگائے گئے ہیں جن کی مدد سے پانچ دن کا سفر 16 گھنٹے میں طے ہونے لگا۔

پھر 1947 کی جنگ میں ہم جہازوں کی خوب ترقی کا موقع ملا چنانچہ تیز رفتاری کی یہ نوبت آءی کہ وہ فاصلہ دخانی جہاز میں چھہ ہفتے میں طے ہوتا تھا ہوائی جہاز میں صرف نو گھنٹے میں طے ہونے لگا۔ اب سائنسدانوں نے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جس سے انسان چاند پر بھی اتر جائیں مزید کوشش جاری ہیں تاکہ دوسری فضاؤں کو بھی تسخیر کیا جائے۔ آج کل بچو! ہوائی جہاز کے بغیر جنگ میں فتح ممکن ہی نہیں یہ جہاز نہ صرف مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جلد از جلد پہنچاتے ہیں بلکہ میدان جنگ میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ بمبار طیارے ہیں تو کچھ سامان رسد پہنچاتے ہیں اور کچھ دشمن ممالک میں اپنی چھاتہ اتارتے ہیں۔غرض جہاز اب انسان کی اہم ترین ضرورت ہے۔ میدانی جنگ میں بھی اور زمانہ امن میں بھی اسی طرح تو میرے وطن کے نوجوان ہوائی جہاز کے کل پرزوں کا کام اور اس کی چلانے کا ڈھنگ سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ بلکل ایسی ہیں جیسے آپ کو میری کہانی سننے کا شوق رکھتے تھے ۔


*

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post