اسلامی اخوت

www.iqranotes.com

اسلامی اخوت


 اسلامی اخوت
 خالق کائنات نے انسان کو پیدا کیا تو اس کے اندر جماعتی زندگی کے تقاضے بھی رکھ دیے۔ اجتماعیت کے ان محرکات نے پہلے خاندان کا روپ دھارا، خاندان سے برادری بنی، برادری نے قبیلہ کی شکل اختیار کی۔ پھر وحدت نسلی نے انسان کو مربوط کیا رکھا، یہاں تک کہ اس میں لسانی وحدت کا احساس پیدا ہوا ۔پھر کچھ عرصے کے بعد جغرافیائی اور علاقائی ہم آہنگی نے اس کی جمعیت کو کچھ اور وسعت بخشی اور بالآخر مذہب نے آکر اجتماعیت کے ان سارے محرکات کو عقیدہ کے زیر نگیں کر دیا۔ مذہبی برادری نے تمام چھوٹی چھوٹی برادریوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

 الہامی مذاہب قدم بقدم چلتے ہوئے سلام کی منزل تک آ پہنچے۔ اب اسلام کی صورت میں دنیا کے پاس زندگی گزارنے کے لئے بہترین لائحہ عمل موجود تھا۔ اسلام نے انسانی اجتماعیت کو چھوٹی چھوٹی تنگنائیوں سے نکال کر ملت کے بے کراں سمندر سے ہمکنار کردیا۔ ملت اسلامیہ نسل، قوم، ملک، زبان اور رنگ کے تمام رشتوں کو توڑ کر وحدت دین کے نظریے سے منسلک ہوگی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں بسنے والا، کوئی سی زبان بولنے والا، کسی بھی نسل سے تعلق رکھنے والا محض لا الہ الا اللہ کہہ کر ملت اسلامیہ کا فرد بن گیا۔ اس کا رنگ سیاہ ہو یا سفید، بھورا ہو یا کالا، وہ یورپ میں  بستاہو یہ ایشیا میں،وہ فرانسیسی بولتا ہوں یا چینی، وہ منگول نسل کا ہو یا آریا نسل کا، محض توحید اور رسالت پرایمان لاکر اسلامی برادری کا رکن قرار پایا گیا ۔
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
 افراد کو پیوستہ رکھنے کے لئے اسلام نے صرف دستوری اور قانونی دفعات ہی کو کافی نہ سمجھابلکہ ان کے دلوں پر اتر کر انہیں باہمی محبت کے رشتوں میں پرو دیا۔ ایک بھائی کی خوشی سارے بھائیوں کی خوشی اور ایک بھائی کے دکھ سے ساری امت معلول، حتیٰ کہ پوری ملت جسد واحد بن گئی جس کے ایک عضو میں درد اٹھنے سے پورے جسم میں ٹیسیں محسوس کی جانے لگی۔ قرآن پاک نے’  انما المؤمنون اخوۃکہہ کر افراد ملت کو ایک ایسے رشتہ موادت میں پرو دیا جس کی مثال اس سے پہلے یا بعد کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اب امت کے احساسات کے تار ایک ساتھ بجنے لگے، حتیٰ کہ ہر بھائی کوشش کرنے لگا کہ وہ خود تکلیف اٹھا کر دوسرے بھائی کو آرام  پہنچائیں۔ اسلامی اخوت کا یہ رشتہ ایسا ناقابل شکست ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے توڑنا چاہے تو وہ خود اسلام سے کٹ جاتا ہے۔
قرآن پاک نے مسلمانوں کے جذبہ اخوت کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپس میں پیکر رحمت ہوتے ہیں لیکن دشمن کے مقابلے میں آہنی چٹان بن جاتے ہیں۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

 ان کا یہی جذبہ  اخوت ہے جس نے ان نامساعد حالات میں بھی ان کےملی وجود کو بچا رکھا ہے۔ اگر کسی ملک کے مسلمانوں کے متعلق سنتے ہیں کہ کسی مصیبت میں گھر گئے ہیںتو ان کے دلوں میں ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں اور جہاں تک ان سے بن پڑتا ہے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد سے دریغ نہیں کرتے۔ پہلی عالمگیر جنگ کے بعد یورپ کے مرد بیمار ترکی پر ادبار کی کٹائی چھانے  اور خلافت اسلامی کا وجود خطرے میں پڑگیا تو دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ہر ملک کے مسلمان اپنے ترک بھائیوں کی مدد کے لیے بے قرار ہیں۔ ہندوستان کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے درد میں آزاد بھائیوں سے بھی سبقت لے گئے ۔ہندوستان کی سیاسی زندگی میں تحریک خلافت اسی جذبہ  اخوت کا بے مثال اظہار تھا۔ طرابلس کے شہیدوں کا لہو دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپکنے لگا اور یہ بے چینی اور بے قراری اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا سر عنوان بن گئی۔فلسطین اور کشمیر کے ستم رسیدہ اور بے گناہ مسلمان آج بھی جسد ملت کو بے چین کیے ہوئے ہیں اور عالم اسلام کی یہ بیچینی دشمنان اسلام کو انگاروں پر لوٹا رہی ہے۔
مسلمانوں میں باہمی ایثار اور محبت کی روح پیدا کرنے کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان میں وقتن فوقتن بھائی چارہ کرادیتے تھے، دو مسلمانوں سے ارشاد فرما دیتے کہ تم آپس میں بھائی بھائی ہو۔ ان میں حقیقی بھائیوں کی طرح حقوق اور واجبات قائم ہو جاتے تھے۔ ہجرت کے بعد آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو اکٹھا کیا اور ایک ایک انصاری اور مہاجر کو بلا کر ان میں بھائی چارہ قائم کر دیا۔
 انصار اور مہاجرین کے اس بے مثال بھائی چارے نے مسلمانوں کے حوصلے بڑھا دئیے اور وہ اپنے سے کئی گنا دشمنوں پرمسلسل غالب آتی رہے یہاں تک کہ مخالفت کے تمام بادل چھٹ گئے اور عرب کی سرزمین مسلمانوں پر   فراخ ہوگی۔اس ابتدائی بھائی چارے کے کامیاب تجربے کے بعد حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ آج ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ سب اہل اسلام کی ایک برادری ہے۔ اس تاریخی اعلان نے ملت اسلامیہ کو محبت اور اخوت کے ایسے گہرےجذبات میں مربوط کردیا کہ وہ سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور تاریخ کے بے پناہ حوادث کے باوجود ان کا شرازہ ملی بکھرنے نہیں پایا۔
بھائی چارے کے اس تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو بتایا کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین روز سے زیادہ تعلق منقطع رکھے چہ جائے کہ وہ آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس کو قتل کرنا کفر ہےبلکہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں، یہاں تک کہ کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ آنکھ سے ایسا اشارہ بھی کرے جس سے کسی مسلمان کو رنج پہنچے۔  آپ نےمومن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مومن وہ ہے  جو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ چاہے جو وہ اپنے لیے  چاہتا ہے۔
 آج کا مسلمان معاشرہ اس مثالی دور سے فروتر ہے، جس کا نقشہ ہمیں دور رسالت میں نظر آتا ہے۔ مسلمان اتحاد و یگانگت سے  تہی دامن ہے۔  ان کے باہمی اختلافات نے ان کی حالت بگاڑ دی ہے۔ بسا اوقات وہ اپنے سے مختلف نظریہ رکھنے والے مسلمانوں کو مصیبت میں مبتلا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ان میں فرقہ وارانہ اختلافات دور تک راہ پا سکتے ہیں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ بجا ہیں لیکن تمام باتوں کے باوجود بحیثیت مجموعی وہ ایک قوم اور ایک ملت کے حصار میں محصور ہیں۔اصحاب بصیرت ان میں زندگی کی ایک نئی روح پھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے جذبہ اخوت کو ازسرنو بیدار کرنا بہت ضروری ہے۔ جب تک ان میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں جیسا باہمی ہمدردی کا ایک برادرانہ جذبہ پیدا نہیں ہوگا ان کی حیات نو کا خواب محض ایک سراب رہے گا اور جس قدریہ جذبہ اخوت پروان چڑھے گا وہبنیان مرصوصیعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ وہ اپنے سارے امتیازات مٹا کر مسلمان اور صرف مسلمان باقی رہ جائیں گے اور چشمے زمانہ جس نظارہ کی بازدید کے لیے ترس رہی ہے وہ زندہ اور پائندہ حقیقت کی شکل میں جنتی نگاہ بن کر زمانہ میں نمود ہوگا۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

*

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post