www.iqranotes.com
قومی اتحاد
قوم کے افراد کے مجموعے کا نام اتحاد ہےجو کسی ایک ملک کے باشندے ہوں اور ایک ملت سے وابستہ ہوں۔جس علاقے کے رہنے والے لوگ ہیں اسی لحاظ سے ان کی قومیت متعین ہو گی۔ یہ قوم کا مغربی تصور ہے۔ لیکن مسلمانوں کی نزدیک دنیا کے تمام مسلمان ایک ہی ملت سے وابستہ ہیں۔ اس لئے عالم اسلام کے تمام مسلمان ایک قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ محدود معنوں میں قومی اتحاد سے مراد پاکستانی قوم کا اتحاد مراد لیا جاسکتا ہے۔
اس کارخانہ سود و زباں میں ہر چیز اتفاق سے قائم اور برقرار ہے۔ اسی اتحاد و اتفاق کی وجہ سے کمزور چیزوں میں بھی بے پناہ قوت آجاتی ہے۔ پانی کا قطرہ اپنی انفرادی حیثیت سے بالکل غیر اہم شہر ہے۔ مگر جب یہی قطرہ سمندر کی طوفانی موجوں کا حصہ بنتا ہے تو لاکھوں من وزنی جہاز اس کے تھپیڑوں سے پناہ مانگتے ہیں اور چٹانیں اس کے سامنے سر بہ خم ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح خاکی زرات کی مثال لیجیے۔ بظاہر ایک ذرہ کتنا حقیر اور بے بس ہے مگر یہی ذرہ کسی آندھی کا جزو بنتا ہے تو کس طرح قیامت برپا کر دیتا ہے۔ یہی زرات ایٹم بم کا باعث بنتی ہیں۔ انسان کا قوم کے ساتھ وہی تعلق ہے جو قطرے کا دریا کے ساتھ ہوتا ہے۔
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
کا ترا ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے
علامہ اقبال نے فرد اور ملت کے تعلق کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کوئی فرد کسی منظم انسانی گروہ کے ساتھ ایک جزو کی حیثیت سے زندگی گزارتا ہے تو اس کا وجود دنیا کو محسوس ہوتا ہے، لیکن جس وقت وہ اپنے تعلقات قوم سے منقطع کر لیتا ہے اور محض انفرادی حیثیت سے زندگی بسر کرتا ہے تو اس کا وجود کوئی قوت نہیں رکھتا۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اسی فلسفہ کو علامہ اقبال نے ایک اور جگہ یوں واضح کیا ہے
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
یعنی اگر شجر سے کوئی شاخ ٹوٹ جائے تو پھر وہ بہار میں بھی سرسبز نہیں ہو سکتی۔ فرد بھی اگر قوم سے رشتہ منقطع کرلے تو اس کی انفرادی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے فرد کو ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھنا چاہیے۔ خدا کا حکم ہے کہ۔
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور الگ الگ نا ہو جاؤ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص کامیابی کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کی زندگی کا ہر شعبہ اپنے ساتھیوں یا بالفاظ دیگر کو یا ملت کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر کام نہ کرے۔
قومی اتحاد قیمتی چیز ہے جس کی بنا پر قومیں آزادی حاصل کرتی ہیں ،جنگوں میں فتح سے ہمکنار ہوتی ہیں اور بڑے سے بڑے مشکل مسائل پر قابو پا لیتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اتحاد نے قوم کو تہت السرا سے نکال کر اوج ثریا پر پہنچا دیا۔ خود پاکستان کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اگر مسلمان متحد ہوکر مسلم لیگ کے مطالبے کی حمایت نہ کرتے تو دنیا کے سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان معرض وجود میں نہ آتی۔ جب تک کہ میں اتحاد پیدا نہ ہو کوئی جدوجہد کامیاب نہیں ہوتی اور جہاں باہم ناچاکی اور نااتفاقی نے جنم لیا، قوم تباہی کے گڑھے میں جا پڑی۔ہمایوں نے محض اپنے بھائیوں کی نااتفاقی سے شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھائی۔ فرانسیسیوں نے میز ایسے حکمران طبقے کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے صرف پندرہ دن میں جرمن قوم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ اس کے بر خلاف قومی اتحاد کی بدولت قوموں نے ترقی کی ہے۔ اتاترک نے قوم کو جب ایک مرکز پر لا کھڑا کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے یورپ کا مرد بیمار ایک تندرست وتوانا آدمی بن گیا۔
ہم جس مذہب کے پیرو ہیں اس کی پاکیزہ تعلیم اپنے اندر اتحاد و مساوات اور ربط باہمی کے ایسے پہلو لیےہوئے ہے جس پر عمل کرنے سے قومی سرفراز ہوتی ہیں۔ اسلام کا ہر رکن اتفاق کی تعلیم دیتا ہے۔ نماز باجماعت اتفاق کا ایک مظاہرہ ہے۔ ہم پاکستانیوں کے لئے اتحاد باہمی کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارا ملک اس وقت تک مضبوط و مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنے اختلافات کو مٹاکر ایک نہ ہو جائیں۔ جب ہم ایک ہو جائیں گے تو کوئی مخالف طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ ہندوستان نے پاکستان پر ایک جارحانہ حملہ کیا ہے مگر منہ کی کھائی ہے۔ پوری قوم نہیں جس ربط باہمی اور اتحاد کا ثبوت دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ پوری قوم ایک فرد واحد کی طرح ایک مرکز پر آگئی اور سامراجی قوتوں کو کچل کر رکھ دیا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو قومیں متحد نہیں رہتی حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ قدرت بھی ان کی مدد نہیں کرتی۔ افراد کا اختلاف قومی تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ موجودہ سیاسی بحران کے زمانے میں قومی اتحاد کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام عالم اسلام ایک مرکز پر جمع ہو اور اسلام کو بلند و بالا کرے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر