حب الوطنی

www.iqranotes.com


حب الوطنی


حب الوطنی

تخلیق کائنات کے دو اجزا نہایت اہم ہیں۔ ایک آسمان اور دوسرا زمین۔ آسمان ارفع اور روحانی قدروں کا نمائندہ ہےاور زمین مادی اقدار حیات کی حامل   ہے۔ اس لئے بعض صوفیاء کے نزدیک آسمان زمین سے بہتر ہے، لیکن ایک اسلام ایسا مذہب ہے جو معتدل اقدار حیات کا داعی ہے۔ ہمارے مذہب کے نقطہ نظر سے زندگی روحانی اور مادی قدروں کی جمیل امتزاج کا نام ہے۔ چنانچہ ہمارے نظام حیات میں زمین کو بھی اتنی ہی اہمیت حاصل ہے جتنی آسمان کو۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا؛’’  حب الوطن من الایمان’’ یعنی وطن کی محبت جزو ایمان ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جو کوتا اندیشہ و سرد مہراس دھرتی سے محبت و وفا نہیں کرتا، جس کی کوکھ سے اس نے جنم لیا ہے، وہ کائنات کی کسی بھی دوسری چیز سے اعلیٰ اور سچی محبت نہیں کرسکتا۔وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے جسے کسی صورت میں نہیں دبایا جاسکتا۔ یہ ایک سدا بہار پھول کی مانند ہے جس کی تازگی اور شگفتگی ہر موسم میں برقرار رہتی ہے۔ چنانچہ ہر زمانے کے دانشور، ادیب اور شاعر اس پاکیزہ جذبے سے سرشار ومست رہے ہیں اور وطن کی محبت کے سلسلہ میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ فن کے شاہکار کی حیثیت حاصل کر گیا ہے۔ حب  وطن کے متعلق فارسی زبان کے ایک مشہور شاعر کے یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

حب وطن از ملک سلیماں خوش تر
خار وطن از سنبل و ریحاں خوش تر
یوسف کے بملک مصر شاہی می کرد
می گفت گدا بودن کنعاں خوش تر   

   حب وطن کی مقدس جذبوں کو کتنی خوبصورت انداز میں ظاہر کیا ہے۔

شاعروں اور  دانشوروں پر ہی منحصر نہیں ہےبلکہ ہر شخص خواہ وہ تہذیب یافتہ ہو، متمدن اور عالم و فاضل ہو یا تہذیب و تمدن سے محروم اور علم و فضل سے بے بہرہ، اپنی مادر وطن سے محبت کرتا ہے اور کرنا بھی چاہئے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں دوسرے ممالک کے افراد سے نفرت کی جائے۔ خصوصا ہمارے مذہب اسلام نے اس کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ اس کی ایک منطقی وجہ یہ ہے کل روئے زمین بھی ایک طرح کا وسیع وعریض وطن ہے اور اس پر بسنے والے افراد ایک دوسرے کے ہم وطن ہیں۔ نیز حب وطن اور نظریہ وطنیت کے درمیان تمیز کرنا بھی ضروری ہے۔  حب وطن سے مراد یہ ہے کہ انسان اس خطہ زمین سے پیار کرتا ہے جس پر اس نے جنم لیا ہے اور جس کی خوبصورت فضاؤں میں اس نے پرورش پائی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی اور فطری جذبہ ہے اس کے مقابلے میں وطنیت ایک سیاسی نظریہ ہے۔ اس نظریے کے حامل افراد محض اپنے وطن سے محبت نہیں کرتے بلکہ ایک طرح کے مفروضہ برتری کے جذبے سے سرشار ہوکر دوسری اقوام سے نفرت کرتے ہیں اور ان کو مطیع و محکوم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں عظیم لڑائیوں کی ایک بڑی وجہ بھی یہی بے جا جذبہ افتخار تھا۔ ایسے مکروہ جذبات و خیالات سے اپنی دل و دماغ کو محفوظ رکھنا نہایت لازمی ہے۔ اسلام کا اخلاقی درس بھی یہی ہے کہ دنیا کی سب مسلمانوں( انسانوں) سے محبت کی جائے اور ان کے اخلاق کو ایمان کی اصلاح کی جائے۔ علامہ اقبال نے اسی وجہ سے’’ وطنیت’’ کے نظریے کی بھرپور مخالفت کی تھی کیونکہ وطنیت کا لبادہ انسانیت کے لئے کفن ثابت ہوسکتا ہے۔ وطنیت کے نظریے کی حامل افراد کا انداز نظر محدود اور انکے سوچ کا اسلوب نہایت پست ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وطن سے محبت کرنے والے اصحاب کی قلب و ذہن میں بڑی وسعت پیدا ہوتی ہے۔ خلوص و وفا کے اس کیف آفرین جذبے سے سرشار ہوکر وہ انسانیت کی بنیادی اقدار کو بھول نہیں جاتے بلکہ اس عالمِ بے خودی میں دوسروں کو بھی گلے لگا لیتے ہیں۔

‘’ حب الوطنی کی پاکیزہ جذبات کے لئے  موضوع انداز کیا ہے؟’’
یہ سوال ہر ذی شعور انسان کے فکر کا محور و مرکز رہا ہے اور اس نے جذبہ عمل کے مختلف اسباب کو جنم دیا ہے۔ حب وطن کا سادہ ترین معیار تو یہ ہے کہ کوئی ایسی حرکت نہ کی جائے جس سے اپنے وطن کی عظمت پر ہلکی سی آنچ  آنے کا بھی خدشہ ہواور ہر لمحہ یہ کوشش کی جائے کہ ہم اپنے مثبت انداز فکر و عمل سے ملک و وطن کی ہم جہتی پیشرفت کا باعث بنیں ۔ہم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو سیاسی لحاظ سے وطن کی سلامتی کے خلاف ہو اور جس سے اغیار فائدہ اٹھا  سکتے ہوں۔ کیونکہ سیاسی انتشار اور بدنظمی وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ چنانچہ خلوص قلب سے کوشش کرنی چاہیے کہ ملک میں سیاسی استحکام جنم لے کیونکہ اس کے ذریعے ملک عظمت و رفعت کے تمام مدارج بکمال سرعت طے کرلیتا ہے۔اقتصادی لحاظ سے بھی وطن کی مجموعی مفاد کو ہر وقت پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ذاتی منفعت انسان کو خودغرض بنا دیتی ہے اور ذرا بھر مادی نفع بھی پست فطرت انسانوں کو اعلی و ارفع اقدار حیات سے محروم کردیتا ہے۔ یہی نازک موقع آدمی کے جذبہ حب الوطنی کی پرکھ کا باعث بنتی ہیں۔اونچے درجے کے انسان اپنے وطن کی مجموعی مفاد پر اپنا سب کچھ نثار کر دیتے ہیں۔ سماجی لحاظ سے بھی وطن کی جمیل اور ارفع انداز کی پائیداری لازمی ہے ۔تخریب پسند عناصر سماجی انتشار کی وساطت سے  ملک و وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں ان سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ نہ صرف خود صالع ومثبت معاشرتی معیاروں کو اپنانا چاہیےبلکہ مستحکم اور فعال معاشرے کے قیام کیلئے بلند سماجی قدروں کی تہذیب و ارتقا کے لئے بھی دل و جان سے سرگرم عمل رہنا چاہیے۔ مور کی تبلیغ و تلقین کا موثر ذریعہ فنون لطیفہ ہیں۔ چنانچہ ثقافت کی تمام شعبوں میں اظہار و ابلاغ کے ایسے وسائل کو برتنا چاہیے جنسی حب الوطنی کے جذبات فروغ پذیر ہوں اور وطن دشمن عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔ ایسی تحریروں تخلیق کا سختی سے معاصبہ کیا جائے جس میں وطن دشمنی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو۔غرض ہر لحاظ سے وطن کو مقدم رکھنا چاہیے اور اس کی عظمت کے لئے ہر وقت اور ہر جگہ مصروف عمل رہنا چاہیے ۔بقول علامہ اقبال خاک وطن کے ہر ذرے کو دیوتا سمجھتے ہوئے وطن کی تقدیروں کو ہر لحاظ سے برقرار رکھا جائے اور اس کی ناموس بقا کے لئے اپنی جانیں تک قربان کرنے سے دریغ نہ کیا جائے۔ خوش بختی سے ہمارے ملک میں وطن کی ایک درخشندہ روایات بھی موجود ہے۔ اس سے ہماری مراد ستمبر1965 کی جنگ ہے جس میں وطن کے جیالے سپوتوں نے اپنے لہو کی سرخی سے تاریخ کا وہ باب لکھا ہے جس پر نہ صرف ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں بلکہ جو اقوام عالم کے لیے درس بصیرت کا سبب بھی ہو گا۔ اس معرکہ حق و باطل میں وطن کے ہر فرزند نے اپنے فرائض کو بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ خصوصابری، بحری اور ہوائی افواج کے بہادر نوجوانوں نے وطن عزیز کے تحفظ و بقا کے لئے جو شاندار کارنامے انجام دی ہیں تاریخ عالم میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔

*

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post