وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

www.iqranotes.com





وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

اقبال نے اس مصرعے میں عورت کا مقام واضح کردیا ہے۔ اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ ایک تصویر میں جب تک مصور رنگ آمیزی نہیں کرتا  وہ محض  خاکہ ہی کہلاتا ہے لیکن جب اس خاکے میں موقع و محل کے مطابق رنگ بھر دیئے جاتے ہیں تو اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر کسی تصویر کے خاکے میں نامناسب اور نہ موزوں رنگ بلا لحاظ بھر دی جائےتو وہ نہ صرف فن مصوری کے معیار کے مطابق نہیں تسلیم کی جاتی بلکہ وہ دیکھنے والے کی توجہ کو بھی اپنی طرف نہیں پھیر سکتی۔اس لئے ایک کامل شاہکار مصوری کا حسن نہ صرف اس کے ڈھانچے کی نفاست پر مبنی ہے بلکہ نقاش کی  جمالیاتی حس کا بھی اس میں بڑا حصہ ہے۔

اگر اس کائنات کو ایک تصور خیال کیجئے تو عورت کا وجود  یہاں اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا خوشنما اور مناسب رنگ ایک تصویر کی تکمیل کے لئے لازم ہے۔ اگر عورت کی تخلیق نہ کی جاتی تو شاید دنیا اتنی حسین نہ ہوتی۔  ہم اس دلیل کے لئے واضح مثال حضرت آدم علیہ سلام کی دے سکتے ہیں کہ انہوں نے ہر اس چیز یعنی مت کی موجودگی میں جو قدرت نے انہیں وا فرمائی گئی تھی ایک ایسے ساتھی کے لئے اللہ تعالی سے درخواست کر دی جو ان کی تنہائی دور کرسکے اور ان کی طبیعت کو بہلا سکے، اور اللہ تعالی نے ایک عورت ہی کو اس اہم ذمہ داری کا اہل سمجھا۔ لیکن محض عورت کا وجودہیں کائنات کی تصویر میں رنگ آفرینی نہیں کرسکتا۔ عورت اس وقت کائنات کی تصویر میں رنگ بھرتی ہے جب کہ وہ ایک مہربان ماں، وفا شعار بیوی ، ہمدرد بہن اور فرماں بردار بیٹی کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے۔  اگر ایک مشفق ماں اپنی تمام کوششیں اپنی اولاد کی صحیح پرورش میں صرف کرتی ہےتو وہ کائنات میں زندگی ڈال دیتی ہے۔ عورت کو بحیثیت ماں جو مقام قدرت نے عطا کیا اس کی شہادت خود قرآن کریم سے مل جاتی ہے۔ اگر یہی عورت اپنے وجود میں وہ تمام شفقت و محبت، انس، خلوص، قوت برداشت اور ضبط وتحمل نہیں رکھتی، جو اس کا حصہ ہے تو وہ صحیح معنوں میں عورت نہیں کہلا سکتی اور ایسی عورت کا وجود کائنات کی تصویر میں ایسا ہی  رنگ معلوم ہوگا جیسا کہ کسی نوآموز مصور کے تصویر میں غلط رنگ بھردینے پر تصویر حسین معلوم ہونے کی بجائے بھدی معلوم ہونے لگتی ہے۔

اب بحثیت بیوی دیکھیے عورت کہاں تک کائنات میں حسن پیدا کرتی ہے۔ ایک وفا شعار بیوی گھر کی چھوٹی سی رونق وفاداری اور خلوص سے بھرتی ہےوہ ناصرف اس کے بلکہ اس کی خاوند اور بچوں کے لیے بھی حد درجہ طمانیت و راحت کا باعث ہوتی ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو آنکھ کی ٹھنڈک فرمایا ہے تو کیا ایک مکمل اور خوبصورت تصویر آپ کی جمالیاتی ذوق کی تسکین نہیں کرتی۔ ضرور کرتی ہے۔  عورت کس طرح اس دنیا کے حسن میں اضافے کا باعث نہیں ہو سکتی۔  اس کے برعکس ایسی خواتین جو اپنی فطری خوبیوں کو  خیرباد کہہ دی اور نسوانیت کا جامع اتار دیں ان کے لیے یہ کہنا بجا ہو گا۔

وجودزن سے ہے عرصہ کائنات میں جنگ

کیونکہ  نیک و بد ھر قسم کے لوگ اس دنیائے رنگ و بو میں موجود ہیں۔ پھر یہ ضروری نہیں کہ جہاں نیکی موجود ہو وہاں طاغوتی طاقت کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایک بری عورت کائنات میں وہی حیثیت رکھتی ہے جیسے گلستان میں خوار اور تصویر میں غلط رنگ۔

 عورت کے وجود نے حقیقت میں اس دنیا کو رونق بخشی مگر مختلف ادوار میں مختلف مفکروں، مذہبی رہنماؤں نے اسے مختلف ناموں سے موسوم کیا۔ کسی نے اسی زمین کا بوجھ قرار دیا اور کسی نے اسے کائنات کی سب سے بد ترین مخلوق قرار دیا، مگر اسلام نے جو مقام عورت کو بخشا دراصل اسی کی طرف اقبال نے اپنی شعر کے اس مصرعے میں اشارہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا کی گہماگہمی، رونق اورچہل پہل ایک ماں،ایک بیوی، ایک بیٹی اور ایک بہن کی رھن منت ہے۔ اگر دنیا میں عورت کا وجود نہ ہوتا تو یہ دنیا ایک بےرنگ و بےرونق مقام ہوتا ہے۔خدا نے عورت کی طبیعت میں رحم، محبت، نرمی، خلوص، وفا شاعری اور ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھر ی ہے اور یہ وہ تمام خوبیاں ہیں جن  کا فقدان ہیں دنیا کو ایک جہنم کا نمونہ بنا دیتا۔ مگر ذرا سوچئے اللہ نے عورت کو پیدا کرکے کائنات پر کتنا بڑا احسان کیا ہے اور حسن بھی بخشا ہے۔ اگر بالفرض اس وسیع و عریض زمین پر میض مرد ہی مردہوتے تو کیا زندگی اجیرن نہ ہوتی۔ کیا ان پر عرصہ حیات تنگ نہ ہو جاتا۔ کیا وہ اپنی اس اداس زندگی سے گھبرا نہ  اٹھتے۔ اور اس کا جواب اثبات میں ہے۔ عورت آنکھ کی ٹھنڈک ہے، دل کا سرور ہے، زخموں کا مرہم ہے دکھوں کا مداوا، تنہائی کی رفیق، مصیبت میں معاون ہے۔ نسل انسانی کی بقا اسی سے ہے۔ اگر ان تمام باتوں سے ہم انکار کر دیں تو اقبال کے اس مصرعے کی تردید خود بخود ہو جائے گی۔ مگر ان حقائق سے انکار مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ آج خواہ مرد اپنی برتری جانے کے لئے اور عورت کا رتبہ گھٹانے کے لئے کچھ بھی کیوں نہ کہیں مگر وہ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ عورت کا وجود راحت کا نہیں بلکہ تکلیف کا باعث ہے۔ اس لئے اقبال نے درست ہی فرمایا ہے کہ عورت کے وجود نے ہی تصویر کائنات میں رنگ پر ہے ورنہ اس دنیا میں سب کچھ ہوتا لیکن یہ رنگینی، رونق اور حسن نہ ہوتا جو اسے عورت نے بخشا ہے۔
Previous Post Next Post